کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 132
بظاہر حدیث کے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ ‘‘ [1]
عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ ان دونوں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا سورۃ فرقان میں اختلاف الفاظ قرآنیہ کے طرزِ آدائیگی میں ہوا تھا۔لیکن اس پر بھی وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو اس سے پچھلے قول پر وارد ہوا تھا۔
۳:… تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے قراء ات کی سات مختلف وجوہ اور اقسام مراد ہیں ، اس طرح کہ قرآنی کلمہ تلاوت ، طرز ادا اور لغوی اعتبارسے تو مختلف ہو، لیکن اس کے معنی اور مفہوم میں کسی قسم کا کوئی تضاذ اور اختلاف نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کا ہر کلمہ سات انداز سے پڑھا جا سکتا ہے ،بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر کلمہ میں زیادہ سے زیادہ جو طرز ِادا ہو سکتی ہیں، ان کی تعداد سات ہے۔
یہ قول میرے نذدیک زیادہ قابل ترجیح ہے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس کی واضح تائید کر رہی ہے۔ یہ حدیث اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ قراء ات کا اختلاف الفاظ کی حدتک تھا، معانی کا اختلاف نہیں تھا اور دوسرا یہ تلاوت کی کیفیت کا اختلاف تھا کہ ایک کلمہ کو کس کس انداز اور طرز سے پڑھا جا سکتا ہے۔امام ابن حجر نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس پر یہ اعتراض کہ بعض کلمات میں وجوہ ِقراء ات سات سے تجاوز کر جاتی ہیں تو امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’قولہ ’’باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ‘‘، أی علی سبعۃ أوجہ ، یجوز أن یقرأ بکل وجہ منہا ،ولیس المراد أن کل کلمہ ولا جملۃ منہ تقرأ علی سبعۃ أوجہ ،بل المراد أن غایۃ ما أنتہی إلیہ عدد القراء ات فی الکلمۃ الواحدۃ إلی سبعۃ،فإن قیل:فإن نجد بعض الکلمات یقرأ علی أکثر من
[1] شرح السنۃ ، از بغوی ۴-۵۰۷.