کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 131
’’یہ اچھی توجیہ ہے ، لیکن قاسم بن ثابت نے ’’الدلائل‘‘ میں اسے بعید از قیاس قرار دیا ہے ، کیونکہ سات حروف میں قراء ات کی اجازت تو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں دی جا چکی تھی ، جبکہ اس وقت لوگوں کی اکثریت لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ اور وہ لوگ حروف کے مخارج کے سواکچھ نہیں جانتے تھے۔‘‘ [1]
۲:… اس سلسلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے سات قسم کے قواعد عامہ مراد ہیں ،جیسے:
(۱):… میم اور ھائے ضمیرکا صلہ( ایسی میم زائدہ جو جمع مذکر پر دلالت کرتی ہے)، اور ان کا عدم ِصلہ۔
(۲):… ادغام اور اظہار
(۳):… مد اور قصر
(۴):… تحقیق ہمزہ اور تخفیف ہمزہ
(۵):… امالہ اوربغیر امالہ
(۶):… ساکن کے ساتھ وقف اور حرکت کی طرف اشارہ کے ساتھ
(۷):… یاء کی فتح اور یائے ساکن کے ساتھ ،اثبات یاء اور حذف ِ یاء کے ساتھ۔
ابو شامہ المقدسی نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ [2]
امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنہ میں اسی قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سات حروف یہ مراد ہے کہ ہر عرب کا ہر قبیلہ ادغام ، اظہار ،امالہ ، تفخیم ، اشمام ، اتمام ، ہمزہ ، تلیین اورلغات ِعرب کی دیگر وجوہ میں سے جس کا بھی وہ عادی ہے، کے مطابق قراء ۃ کر سکتا ہے۔ یہ قول تمام اقوال سے زیادہ واضح، صحیح اور
[1] فتح الباری شرح صحیح البخاری ۹-۲۹.
[2] المرشد الوجیز ، ابو شامہ ، ص ۱۲۷.