کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 129
اور دوسری میں ﴿وَمَا عَمِلَتْ اَیْدِیْہِمْ﴾ ہے۔ [1]
اس قول کی رو سے سات حروف سے مراد قراء ات کے وہ اختلافات ہیں جو سات نوعیتوں میں منحصر ہیں۔
اس موقف نے سبعۃ احرف کے مفہوم کو اختلاف ِقراء ات کی سات نوعیتوں میں منخصر کر دیا ہے۔اور یہی موقف درحقیقت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مطابقت بھی رکھتا ہے اور اس حدیث کے اصول وقواعد سے ہم آہنگ بھی۔ الفاظِ حدیث کے مفاہیم بھی اس موقف کی ترجماتی کرتے نظر آتے ہیں اور اختلافات قراء ۃ کی وہ متعدد وجوہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں اور اس میں امت کے لئے میسر ہ آسانی بھی سبعۃ احرف کے اسی مفہوم کی غماز نظر آتی ہے۔ متقدمیں علماء کی ایک بڑی تعداد کا موقف بھی یہی ہے۔اور اسی موقف کو متاخرین علماء کی کثیر تعداد کے ہاں شہرت اور پزیرائی ملی۔ علمائے متاخرین میں سے الشیخ محمد بخیت المطیعی ، الشیخ محمد عبد العظیم الزرقانی نے بھی اسی موقف کو اختیار کرتے ہوئے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قول سبعہ احرف کی احادیث سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اور یہی وہ رائے جسے پوری تحقیق وجستجو اور استقراء کے بعد قابل اعتماد قرار دیا جاسکتا ہے۔ [2]
اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے بھی یہی لکھا ہے:
’’وہذا وجہ حسن من وجوہ معنی الحدیث ‘‘[3]
’’سبعہ احرف کی حدیث کے سلسلے میں جتنی بھی توجیہات کی گئی ہے یہ ان میں سب سے بہتر ین توجیہ ہے۔‘‘
[1] تفصیل کے لئے دیکھئے ، تأویل مشکل القرآن ،ص ۳۹ ،صفحات فی علوم القراء ات، ۱۰۷.
[2] تفصیل کے لئے دیکھئے: مناہل العرفان ، از عبد العظیم زرقانی ۱-۱۵۵، الکلمات الحسان ، از المطیعی ، ص ۱۳۴.
[3] التمہید ، از ابن عبد البر۸-۲۹۵.