کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 124
بحرف واحد مخافۃ الفتنۃ فی زمن عثمان ، ثم اجتمع أمر الأمۃ علی ذلک وہی معصومۃ من الضلالۃ۔‘‘ [1] ’’ قرآن کریم کی قراء ۃ اور حفظ کے معاملہ میں امت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے سات حروف میں سے جس حرف کو چاہے اختیار کر لے۔ اورحالات کا تقاضا بھی تھا کہ ایک حرف کے مطابق قراء ۃ کو اختیار کر کے دور ِ عثمان میں سراٹھانے والے فتنہ اور انتشار کو ختم کر دیا جائے۔چنانچہ امت نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اجتماعی مصلحت کے تحت چھ حروف کو چھوڑ کر ایک حرف پر اتفاق کر لیااوریہ حقیقت ہے کہ امت کبھی گمراہی پر اتفاق نہیں کر سکتی۔‘‘ اس موقف کے حاملین نے ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کلہا شاف کاف مالم تختم آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ بعذاب ،نحو قولک تعال وأقبل وھلم وأذہب وأسرع وعجل۔‘‘ [2] ’’ان سات حروف میں سے ہر حرف کافی اور شافی ہے ،بشرطیکہ عذاب کی آیت کا اختتام رحمت پر اور رحمت کی آیت کا اختتام عذاب پر نہ ہو۔ جیسا کہ تم تعال
[1] تفسیر الطبری۔ باختصار۔ ۱-۵۷. [2] مسند أحمد ۵-۴۱، مصنف ابن ابی شیبہ ۶-۱۳۸۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ الفاظ مسند احمد کی روایت میں جید سند کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ۱-۱۶۸۔ اور امام ہیثمی نے لکھا ہے کہ امام احمد اور امام طبرانی نے اس روایت کو اس سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، مگر انہوں نے أذہب اور أدبر کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ لیکن اس روایت میں علی بن زید بن جدعان سوء الحفظ راوی ہے ، البتہ اس کی متابعت موجود ہے اور مسند احمد کے دیگر راوی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ (مجمع الزوائد ۷-۶۲).