کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 107
تدوین کے بعدسے آج تک قرآن کی قراء ۃ تمام حروف کی بجائے ان بعض حروف کے مطابق جاری ہے ،جن پر قرآن نازل ہوا تھا۔‘‘ [1]
اور امام مکی بن ابو طالب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ تمام تر قراء ات جو آج عالم اسلام میں پڑھی جا رہی ہیں اور جن کی روایت ائمہ قراء کے ہاں صحیح ثابت ہے، یہ ان سات حروف کا حصہ ہیں جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا۔اور یہ تمام قراء ات مصحف عثمانی کے رسم کے مطابق ہیں جن پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے آج تک پوری امت متفق چلی آرہی ہے۔‘‘ [2]
اور امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے دونوں نقطہ ہائے نظر کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد اسی قول کو صحیح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’یہی وہ قول ہے جس کا صحیح ہونا واضح ہو چکا ہے ، کیونکہ صحیح احادیث اور مشہور آثار اس کی صحت کی شہادت دے رہے ہیں۔‘‘[3]
اور ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھا ہے کہ
’’حق بات یہ ہے کہ جو کچھ مصحف عثمانی میں جمع کیاگیا ، پوری امت مسلمہ اس پر متفق ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف نازل کیا گیا تھااور قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پورا قران کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا ہوا موجود تھا۔ اور اس میں ساتوں حروف کی بجائے بعض حروف جمع تھے۔ جیسا کہ مصحف مکی میں ’’جنت تجری من تحتھا الأنھر‘‘ ہے ، جبکہ دیگر مصاحف میں ’’من‘‘ کے بغیر ’’جنت تجری تحتھا الأنھر‘‘ ہے۔ اسی طرح دیگر قراء ات جو رسم عثمانی کے خلاف تھیں ،آغاز میں لوگوں کی آسانی اور وسعت کے پیش نظر،ان کو پڑھنے کی
[1] بیان السبب الموجب لإختلاف القراء ات ، از مہدوی ، ص ۱۴۸.
[2] الإبانۃ عن معانی القراء ات ، ص ۳۲.
[3] النشر فی القراء ات العشر ۱-۳۱.