کتاب: حدیث سبعہ احرف کا عمومی جائزہ - صفحہ 106
اور اس قول کے حاملین کا مزید یہ کہنا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوری امت مسلمہ کو ایک ہی قراء ۃ پر جمع کرنے کے لئے تمام مصاحف عثمانیہ کو حرف ِقریش کے مطابق مدون کرنے کا حکم دیا تھا اور تمام عالم اسلام کو انہیں کے رسم کے مطابق روایت کا پابند کر دیا تھا۔ اور آج تمام قراء ات عشرہ کا ماخذ یہی ایک حرف قریش ہی ہے۔امام ابن جزری رحمہ اللہ اپنے ایک بیان میں اسی قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ سات حروف میں قراء ۃ کی اجازت ابتدائے اسلام میں ایک مجبوری کے تحت دی گئی تھی کہ اس وقت تمام قبائل عرب کو ایک حرف ِ قریش کا پابند کرنے سے ان کے لئے کافی دقت ہوتی۔لیکن جب ان کی زبانیں لغت قریش سے مانوس ہو گئیں اور ان کے لئے اس ایک حرف پر متفق ہونا کوئی مشکل نہ رہا تو بالآخر پوری امت مسلمہ عرضہ اخیرہ کے مطابق ایک حرف پر جمع ہو گئی۔‘‘ [1] دوسرا قول: یہ جمہور علمائے سلف و خلف اور محققین علمائے قراء ۃ کا موقف ہے اور اسی کو ابو العباس المہدوی ، مکی بن ابی طالب اور امام ابن الجزری نے اختیار کیا ہے کہ قراء ات عشرہ ساتوں حروف کا حصہ اور جز ہیں۔ اور یہی وہ قراء ات تھیں جو عرضہ اخیرہ میں باقی رکھی گئیں تھیں۔اور جمع عثمانی میں ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا تھا کہ وہ تمام قراء ات کا احاطہ کر سکے۔چنانچہ ابوالعباس مہدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سات حروف جن پر قرآن کریم نازل ہوا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: ’’ان میں سے جو تمہیں آسان لگے ، اس کے مطابق پڑھ لو۔ ‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تمام حروف کے مطابق قراء ۃ کو لازم قرار نہیں ، بلکہ ان میں سے بعض پر انحصار کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔لہٰذا مصحف عثمانی کی
[1] النشر فی القراء ات العشر۱-۳۲.