کتاب: حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ - صفحہ 89
یعنی: لوگوں نے جو پہلی نبوتوں کی انتہائی اہم بات پائی ہے وہ یہ ہے :جب تم میں حیاء نہ رہی تو پھرجوچاہو کرتے پھرو۔
(۱۵) معصیتوں کے مرتکب شخص کےدل سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم ختم ہوجاتی ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں سے اس کی تعظیم وتکریم ختم کردیتاہے۔(والجزاء من جنس العمل)
(۱۶) معصیت کی ایک بھیانک سزا یہ بھی ہے کہ یہ اس امر کی متقاضی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو بھلاکر اسے اس کے نفس اوراس کے شیطان کے سپرد کردے،یہ ایک ایسی تباہ کاری ہے جس میں نجات کی کوئی امید نہیں بچتی۔[وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۹][1]
ترجمہ:اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں ۔
(۱۷) نافرمان شخص ہمیشہ اپنے شیطان اور اپنی شہوات وخواہشات کا قیدی رہتا ہے،ابراھیم نے اپنے والد سے کہاتھا:
[1] الحشر:۱۹