کتاب: حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ - صفحہ 33
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر انسان پیداتو سلیم الفطرت ہوتاہے ،مگر جاہل ہوتا ہے،اس کے اندر بالقوہ قبولِ حق کی استعداد ہوتی ہے ،اب اگر وہ انبیاءِ کرام کی تعلیمات کو اپناتاہے،جو کہ ہدایت کا منبع ومخزن ہوتی ہیںاور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتارہتا ہے ،تو وہ یقیناً زیورِ ہدایت سے آراستہ وپیراستہ ہوجائے گا،لیکن اگر وہ اپنے اندر فطرۃً قبولِ حق کی استعداد کے باوجود،وحیٔ الٰہی سے ہدایت حاصل نہیں کرتا اورنہ ہی صدقِ دل سے ہدایت کی دعاکرتاہے تووہ گمراہ ہی رہتا ہے ۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اسی نکتہ کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قد ظن بعضھم أنہ معارض لحدیث عیاض بن حمار عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم (یقول اللہ عزوجل :خلقت عبادی حنفاء-وفی روایۃ:مسلمین- فاجتالتھم الشیاطین) ولیس کذلک، فإن اللہ خلق بنی آدم وفطرھم علی قبول الإسلام والمیل إلیہ دون غیرہ، والتھیؤ لذلک والاستعداد لہ بالقوۃ ،لکن لابد للعبد من تعلیم الإسلام بالفعل، فإنہ قبل التعلیم جاھل لایعلم شیئا،کما قال عزوجل:[واللہ أخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئا]وقال لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم : [ووجدک ضالا فھدی] والمراد وجدک غیر عالم بما علمک من الکتاب والحکمۃ