کتاب: حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ - صفحہ 22
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ظلم کا اصل معنی:حد سے تجاوز کرنا ہے، اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کیلئے حدبندی کون کرسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسنِ ادب کا ایک اہم پہلو
اللہ تعالیٰ کی صفات میں حسنِ ادب کا ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ جب اس کی ذات سے کسی بھی صفتِ نقص کی نفی کی جائے گی تو اس کے مقابلے میں جو صفتِ کمال ہوگی،اس کا اللہ تعالیٰ کیلئے لازماً اثبات کیاجائے گا،توظلم کے مقابلے میں عدل ہے ،اللہ تعالیٰ ظلم نہیں فرماتا،بلکہ وہ ذات کمالِ عدل سے متصف ہے۔
ظلم چونکہ ایک ناپسندیدہ اور انتہائی معیوب خصلت ہے،لہذا اللہ تعالیٰ سے اس کا صدور مستحیل ہے،اور اللہ تعالیٰ نے بندوں پر بھی ظلم حرام کردیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وجعلتہ بینکم محرماکہ میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قراردے دیا ہے۔
’’فلا تظالموا‘‘یہ ’ظا‘کے فتحہ اور تشدید کے ساتھ ہے،جو اصل میں ’’تتظالموا‘‘ تھا،باب تفاعل کے فاء کلمہ میں ’ظا ‘آگئی ،لہذا بمطابقِ قاعدہ تاءِ تفاعل کو ’ظا‘ میں تبدیل کیا گیا اور’ ظا‘ کو ’ظا‘میں ادغام کردیاگیا۔باب تفاعل میں مشارکت کا معنی پایاجاتاہے،اس لئے ’’لاتظالموا‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو،اور یہ جملہ ،سابقہ جملہ وجعلتہ بینکم محرماکی تاکید ہے،گویا اس حدیث میں بڑی تاکید کے ساتھ ظلم