کتاب: حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ - صفحہ 129
(أوفی ذلک أنت یاابن الخطاب ؟إن أولئک قوم عجلوا طیباتھم فی الحیاۃ الدنیا )
یعنی:اے خطاب کے بیٹے!کیا تم بھی اس بارہ میں سوچتے ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کی اچھائیوں کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے۔
امیر المؤمنین نے عرض کیا:(یارسول اللہ!إستغفرلی)اے اللہ کے رسول!میری بخشش کی دعاکردیجئے۔[1]
دنیاوی انہماک وانشغال کی بجائے اخروی فوزوفلاح کی طرف توجہ دینا ہی دانشمندی ہے ،اللہ تعالیٰ جو ہمارا ایک ایک عمل دیکھ رہا ہے اور روزِ قیامت ان کی جزاء یا سزا کے فیصلے فرمائے گاتوصورتِ حال بہت ہی خوفناک ہوگی،اور معاملہ انتہائی سنگین ہوگا۔
ہماری اخروی استعداد کے حوالے سے یہ سوچ ہونی چاہئے کہ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہر عمل کا پوراپورابدلہ دینا ہے تو ہم صرف اچھے اعمال اختیار کرلیں،تاکہ برے بدلے سے بچ سکیں۔
پھر اچھے اعمال میں ایسے بہت سے عمل ہیں کہ وہ بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں،جن سے بڑی آسانیاں حاصل ہوجائیں گی اور محض اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کامیابی کی امیدیں پیداہوجائیں گی۔
[1] بخاری:۲۴۶۸