کتاب: حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ - صفحہ 112
ہوتاہے،جہاں شرک ہوتاہے وہاں عقل نہیں ہوتی،اور جہاں عقل ہوتی ہے وہاں شرک نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کے سوا آج تک جن جن کو پوجایاپکاراگیا،جن جن کو پکارا جارہا ہے اور جن جن کو قیامت تک پکاراجائے گا ،خواہ وہ کسی بھی نوع کی مخلوق ہوں، سب کی ملکیت،تصرف یا خزانوں کی کیاحقیقت ہے ؟قرآن کی زبانی سنتے ہیں:
[يُوْلِجُ اللَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۡۖ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۱۳ۭ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۰ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ۱۴ۧ ][1]
ترجمہ:وه رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب وماہتاب کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے۔ یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والااسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وه تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار
[1] فاطر:۱۳،۱۴