کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 99
معمولی اور دھندلا سا تصور بھی نہیں تھا اور آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے اور کتا ب کسے کہتے ہیں ، یہ صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل کی پوری زندگی میں اخلاق وکردار اور شرافت وبزرگی کے اعتبار سے نہایت اعلیٰ اور منفرد مقام پر فائز تھے۔ آپ فطری توحید کی صفت سے بھی موصوف تھے بایں طور کہ شرک جلی اور خفی اور شرک اکبر اور اصغر سے آپ کی زندگی پاک تھی، مگر یہ ساری چیزیں فطری تھیں ، جبلی تھیں شعوری نہ تھیں اور جس ماحول میں آپ کی چالیس سالہ زندگی گزری تھی اس میں کسی کی زبان پر بھی دین حنیف یا دین ابراہیمی کا ذکر نہ آتا تھا۔ زید بن نفیل جیسے پاکیزہ صفت انسانوں کے دلوں میں بت پرستی سے نفرت پیدا ہو گئی تھی تو وہ ان کی پاکیزہ فطرت کا تقاضا تھی، ورنہ ان کو توحید وشرک کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے معجزانہ اسلوب میں بیان کر دیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾ (العنکوت: ۴۸) ’’اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو یقینا باطل پرست شک میں پڑ جاتے۔‘‘ ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ﴾ (الشوریٰ: ۵۲) ’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی تو نہ یہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔‘‘ ﴿وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم: ۴) ’’اور در حقیقت تم عظیم اخلاق پر فائز ہو۔‘‘ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن مبارک نبوت ورسالت اور کتاب وایمان کے تصور سے اس حد تک خالی تھا کہ غار حرا میں جبریل علیہ السلام کی آمد اور سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نزول کے بعد بھی آپ اس عظیم واقعہ کی کوئی توجیہہ نہ کر سکے اور اس غیر متوقعہ اور ناگہانی صورتحال سے حد درجہ خوف زدہ ہو گئے اور آپ کو اپنی زندگی سے متعلق اندیشہ ہونے لگا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ام المومنین خدیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈھارس اور اطمینان دلانے کے لیے آپ کے حق میں جو کلمات کہے وہ ایک غیر معمولی اور عظیم انسان کے اوصاف سے تو عبارت تھے، مگر ان میں بھی نبوت ورسالت کی جانب ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ہے، اس لیے کہ ام المؤمنین کا ذہن بھی اس سے خالی تھا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یا آپ سے پوچھ کر آغاز وحی کے واقعہ کی جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں بھی صرف اتنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا اور آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ہوتا جس کے بعد آپ کو خلوت گزینی محبوب ہو گئی اور آپ نے غار حرا میں