کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 98
سے نہیں آیا ہے اس کے بجائے ’’مُحدَّثُون‘‘ کی تعبیر آئی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں : آپ فرمایا کرتے تھے: ((قد کان یکون فی الأمم قبلکم مُحَدَّثُون، فإن یکن فی اُمتی منہم أحد (فعمر) فإن عمر! بن الخطاب منہم۔)) ’’تم سے پہلے کی امتوں میں صحیح گمان والے لوگ ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں ان میں سے کوئی ہے تو وہ عمر ہیں ، یقینا عمر بن خطاب انہیں میں سے ہیں ۔‘‘ [1] ’’مُحدَّث‘‘ حدَّث یُحدَّث کا اسم مفعول ہے جس کے معنی ہیں ایسا شخض جس سے کوئی بات کرے، مطلب ہے کہ جس کے دل میں حق بات ڈالی دی جاتی ہے، یا جس کا خیال اور گمان درست ہوتا ہے۔ یہ ’’ملہم‘‘ کے معنی میں ہے۔ شاہ ولی اللہ کی عبارت میں ’’الْمفہَمُون‘‘ ’’المْفہَم‘‘ کی جمع ہے اور ’’مفہم، أفہَمَ یُفہِمُ‘‘ کا اسم مفعول ہے جس کے معنی ہیں ایسا شخص جس کو سمجھا دیا گیا ہے، انہوں نے ’’مفہمون‘‘ کو اصطلاحی لوگ قرار دیا ہے جو صوفیا کے نزدیک تو اصطلاحی ہو سکتے ہیں لیکن حدیث میں یہ تعبیر نہیں آئی ہے۔ الطاف اعظمی نے شاہ صاحب کی اس عبارت کا حوالہ دیا ہے اور اس کا ناقص ترجمہ بھی کیا ہے ان کی عبارت یا ترجمہ میں جو چیز قابل التفات ہے وہ یہ کہ انہوں نے مُفہمَون کا املا مفہومون اور مفہومین کیا ہے؟!! اس کے بعد اعظمی صاحب نے سر سیّد کی ایک عبارت کا اقتباس نقل کیا ہے۔ ان کے بیان سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبوت کو ’’وہبی‘‘ مانتے ہیں ، اکتسابی نہیں ، لیکن انہوں نے اس بحث کو جن الفاظ پر ختم کیا ہے ان سے یہ تاثیر ملتا ہے کہ منصب نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں عبادت وریاضت شروع کر دی تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ اس سے آپ کے اندر اللہ کے پیغام کو وصول کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے فرماتے ہیں : ’’معلوم ہے کہ آغاز نبوت سے بہت پہلے آپ غار حرا میں مہینوں اعتکاف فرماتے اور وہاں عبادت وریاضت میں مشغول رہتے تھے، اس عبادت وریاضت سے مقصود نفس کا تزکیہ تھا تاکہ روحانی استعداد جو آپ میں فطرتاً موجود تھی، مزید ترقی کر کے اس مقام تک پہنچ جائے جہاں آئندہ خدا کے پیغام کو وصول کرنا آپ کے لیے آسان ہو جائے، چنانچہ جب آئینہ قلب پوری طرح صیقل ہو گیا تو پہلی وحی اسی غار کے اندر آپ پر نازل ہوئی۔‘‘[2] یہ پوری عبارت محض افسانہ ہے، کیونکہ منصب نبوت پر سرفراز کیے جانے، یا سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نزول سے چند لمحے قبل تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن مبارک میں نبوت ورسالت اور اللہ کے پیغام کو وصول کرنے کا کوئی
[1] ایضاً مسلم: ۲۳۹۸ [2] ص ۲۵