کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 97
اور سابق رسولوں پر نازل ہونے والی کتابیں بھی وحی تھیں تو پھر صرف قرآن کے وحی ہونے کی بات غلط ہوئی۔ اگر ان پر نازل ہونے والی کتابیں وحی نہیں تھیں ، بلکہ ’’کوئی اور ہدایت یا پیغام مراد تھا، تو اس کی شرعی حیثیت کیا تھی، اور اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کو دوسرے رسولوں کی طرف وحی سے تشبیہ کیوں دی ہے؟ ۳۔ اگر دوسرے رسولوں کو دی جانے والی کتابیں تو وحی تھیں جو مجموعہ ہدایات واحکام تھیں تو کیا ان کتابوں پر ان رسولوں کی تشریح وبیان کے بغیر عمل ممکن تھا؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو پھر ان رسولوں کے فرائض منصبی کیا تھے؟ کیا ان کتابوں کو لکھ لکھ کر اپنی اپنی امت کے ہر ہر فرد کو پہنچانا اور ان کے حوالہ کرنا؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو یہ مکابرہ اور ہٹ دھرمی ہے، کیونکہ اس کے لیے انبیاء اور رسولوں کی بعثت ضروری نہیں تھی اس کے بغیر بھی ہر ایک پر کتابیں نازل کی جا سکتی تھیں ، اور اگر رسولوں پر اللہ کی کتابوں کی تلاوت اور ان کی تبلیغ کے ساتھ ان میں مندرج احکام وہدایات کی تشریح وتفسیر بھی کرنی تھی اور جو فرض و واجب تو نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ یہ ان کی من مانی تھی کسی وحی پر مبنی نہیں تھی اور اس کو تدبیر اور بصیرت کا نام دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی تھی اور جو چیز وحی نہ ہو وہ آپ کے نزدیک مخصوص ربانی ہدایت بھی نہیں ہو سکتی۔ نبوت ورسالت کی حقیقت: شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’حقیقۃ النبوۃ وخواصہا‘‘ نبوت کی حقیقت اور اس کے مخصوص اوصاف۔[1] اگر وہ اس باب کا عنوان صرف یہ قائم کرتے خواص النبوۃ، تو بہتر رہتا، کیونکہ نبوت کی حقیقت کا ادراک ہم نہیں کر سکتے، البتہ ہم نبوت کے خواص اور انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی صفات کا ادراک کر سکتے ہیں ، مگر ان میں سے صرف انہی صفات کو ماننا چاہیے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں ، قصص الانبیاء نامی کتابوں میں رسولوں کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر من گھڑت اورجھوٹے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ نے اس باب کے تحت جو ذیلی عنوان قائم کیا ہے وہ یہ ہے: ’’المُفہَمُون ہُم أعلی طبقات الناس ‘‘ مفہمون لوگوں میں سب سے اعلیٰ طبقہ کے لوگ ہیں ، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جان لو کہ اعلیٰ درجہ کے لوگ مُفہمُون ہیں یہ اصطلاحی لوگ ہیں ، ان کی صفت ملکیت بڑی بلند ہوتی ہے، اس کا امکان رہتا ہے کہ یہ لوگ حقیقی محرک اور داعیہ سے مطلوب نظام قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، جن پر ملا ٔ اعلیٰ سے علوم واحوال الٰہی کے چھینٹے پڑتے ہیں ۔ [2] مذکورہ بالا عبارت خالص صوفیانہ ہے احادیث میں بلند اخلاق وکردار کے مالک افراد کا ذکر ’’مفہمون‘‘ کے نام
[1] ص ۲۴۶ ج ۱ [2] ایضاً