کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 96
میں تو ایک ہی تھی، لیکن ’’موحی بہ‘‘ یعنی جن باتوں کی وحی کی گئی تھی، وہ متفق علیہ بھی تھیں اور مختلف فیہ بھی؛ توحید کے مسئلہ میں تمام رسولوں کو جو احکام دیے گئے تھے ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’اور ہم نے تم سے پہلے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ در حقیقت میرے سوا کوئی معبو دنہیں ، سو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ رہیں سابقہ شریعتیں اور طریقہ ہائے کار تو وہ ایک دوسرے سے مختلف تھے اور ہر امت کے حسب حال ان کو شرعی احکام دیے گئے تھے: ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ﴾ (المائدۃ: ۴۸) ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ہی راستہ اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا، لیکن (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ تمہیں جو کچھ دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔‘‘ سورۂ شوریٰ کی آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’أوحینا‘‘ اور آپ سے پہلے اور بعد کے رسولوں کے لیے ’’وصینا‘‘ کی تعبیر، آپ کی رسالت کی تصریح کی غرض سے اختیار کی گئی ہے۔ [1] سورۂ حدید کی آیت نمبر ۲۵ کے مطابق تمام رسولوں کو کتابیں دی گئی تھیں اور اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں یہ واضح فرمایا دیا ہے کہ اس نے ان سب رسولوں کی طرف وحی کی ہے، اور اعظمی صاحب کا دعویٰ ہے کہ: ’’وحی سے مراد وہ مخصوص خدائی ہدایت ہے جو پیغمبر کے توسط سے اہل ایمان کو ملی اور اسی حکم وہدایت کا نام قرآن ہے اور قرآن اور وحی باعتبار حقیقت مترادف الفاظ ہیں ۔‘‘ اس سے قبل انہوں نے انبیاء اور غیر انبیاء کی طرف کی جانے والی وحی سے متعلقہ آیتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’یہ تو وحی اور ایحاء کے لغوی معنی ہوئے، لیکن قرآن میں جہاں خدا کی طرف سے اس کے رسولوں کی طرف وحی کرنے کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد کوئی ہدایت یا پیغام بھیجنا ہے۔‘‘[2] کیا میں موصوف کے اس ارشاد سے یہ نتائج اخذ کر سکتا ہوں : ۱۔ قرآن کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی کوئی بھی چیز وحی نہیں تھی، اس لیے ہدایت بھی نہیں تھی؟ ۲۔ سابق انبیاء اور رسولوں کو کی جانے والی ’’وحی سے کوئی ہدایت یا پیغام‘‘ میں کوئی ہدایت یا پیغام سے کیا مراد ہے: ان پر نازل ہونے والی کتابیں یا کچھ اور؟
[1] شوکانی ص ۶۵۵، ج ۴ [2] ص: ۲۰