کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 95
اعظمی کا خلط مبحث: الطاف احمد اعظمی نے حدیث سے وحی کی صفت کی نفی یا حدیث کے وحی نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے ہیں ، انہوں نے کبھی تو قرآن سے غلط استدلال کیا ہے، قرآنی تعبیرات کی غلط ترجمانی کی ہے اور ایسی آیتوں کا تو ذکر کیا ہے جن سے بظاہر ان کے خیال کا اشارہ ملتا ہے، لیکن ایسی ہر آیت سے گریز کیا ہے جس سے ان کور دبتی تھی، پھر اپنے دعوے کی تائید کے لیے تفسیر اور اصول کی ان کتابوں کا سہارا لیا ہے جن کے مصنّفین جہاں کسی حد تک انہی خیالات کے ہم نوا تھے وہیں آزاد خیال بھی تھے، جبکہ اس طرح کے مسائل میں قرآن وحدیث کی نصوص سے رجوع کیا جاتا ہے، نہ کہ زید وعمر کے اقوال سے۔ ایحاء، توصیۃ اور إنزال میں حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی طرف عموماً اور اپنے آخری نبی اور رسول محمد بن عبداللہ صلوات اللہ وسلامہ علیہم کی طرف خصوصاً اپنے احکام بھیجنے کے لیے ’’أوحینا، وصینا اور أنزلنا‘‘ کی جو تعبیریں استعمال کی ہیں وہ حقیقت نفس الأمری میں ایک ہیں ، صرف صفات میں مختلف ہیں ، مثلاً تمام رسولوں پر نازل ہونے والی کتابیں اپنی صفت نزول میں وحی تھیں ، اپنے احکام وہدایات کی فرضیت میں وصیت یا توصیہ تھیں اور اپنے مقام ومرتبے کے اعتبار سے منزل تھیں یعنی اوپر سے نازل ہوئی تھیں ۔ سورۂ شوریٰ کی نمبر ۱۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’أوحینا‘‘ کی تعبیر، نوح اور دوسرے رسولوں کے لیے ’’وصینا‘‘ کی تعبیر کی ضد نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنے رسولوں کو ‘‘اقامت دین‘‘ کا جو حکم دیا تھا وہ بذریعہ وحی ہی دیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو وحی کی تھی اس میں بھی یہی حکم تھا میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی دلیل سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۶۳ ہے۔ جس میں صرف ’’أوحینا‘‘ کی تعبیرآئی ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ہٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا﴾ (النساء: ۱۶۳) ’’درحقیقت ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی ہے، جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف وحی کی تھی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل، اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی اور داود کو زبور دی۔‘‘ سورۂ شوریٰ میں بذریعہ وحی مقرر کیے جانے والے دین اور اس کی اقامت کا ذکر تھا، اس لیے ’’ما موصول‘‘ لایا گیا ہے اور سورۂ نساء کی آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جانے والی وحی کو آپ سے پہلے کے انبیاء اور رسولوں کی طرف کی جانے والی وحی سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ تمام رسولوں کو کی جانے والی وحی اپنی قسم اور جنس