کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 94
مسلمانوں میں حرام ہے، یہودیوں میں نہیں ۔ الطاف اعظمی نے حجۃ اللہ البالغہ کے جس باب کے حوالہ سے دعویٰ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات قرآنی کا ’’بڑا حصہ‘‘ عربی عہد کے تہذیبی حالات اور عربوں کی عادات ورسوم کے مطابق ہے‘‘ اس باب کے بیشتر عنوانات کا میں نے تعارف کرا دیا ہے ان میں سے صرف اسی آخری عنوان کا تعلق عربوں کی عادات سے ہے اس عنوان کے تحت شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں میں اونٹ کے گوشت اور دودھ کی حلت اور بھانجی سے نکاح کی حرمت کو عربوں کی عادات کا نتیجہ قرار دیا ہے، جہاں تک اونٹ کے گوشت اور دودھ کا مسئلہ ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہیں اس طرح بھانجی سے نکاح بھی اللہ تعالیٰ کے صریح حکم سے حرام ہے، تشریحات رسول سے نہیں ۔ کیا جس شخض کا ضمیر زندہ ہوگا، اور جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولی سا بھی احترام ہوگا وہ یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کا بڑا حصہ عربوں کی عادات ورسوم کے مطابق ہے‘‘ اور اس کو ایسے شخص کا قول قرار دے گا جس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ دراصل یہ اہل قرآن اور منکرین حدیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ کی سیرت پاک سے لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے، علمی خیانتیں کرتے ہیں ، غلط بیانیاں کرتے ہیں اور کتابوں کے غلط حوالے دیتے ہیں اور اس خود فریبی میں جی رہے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اعظمی صاحب نے مذکورہ پیرا گراف اس فقرے پر ختم کیا ہے: ’’یہی وجہ ہے کہ عہد خلافت بالخصوص خلیفہ دوم کے عہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فیصلوں کے برعکس فیصلے کیے گئے اور کسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا۔‘‘ غور فرمائیے کہ دعوی اتنا بڑا کہ آسمان وزمین ہل جائیں اور دلیل کوئی نہیں ؛ دراصل ان لوگوں کی ایک شناخت اور پہچان یہ بھی ہے کہ یہ اپنے نہایت گمراہ کن اور جھوٹے دعووں کے دلائل نہیں دیتے اور چونکہ ان کی تحریریں پڑھنے والے عام طور پر ان کے ہم خیال وہم نوا ہوتے ہیں اور خود حقائق کا سراغ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے ان کے دعووں پر آمنا وصدقنا کہہ کر ان کو پھیلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اب جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے اور اس کے برعکس کوئی فیصلہ کرنے کی بات ہے تو یہ تو بہت بڑی ہے، قرآن کے مطابق تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے پر دل تنگ ہونا بھی منافی ایمان ہے۔ (سورۂ نساء: ۶۵) اس تناظر میں کوئی مسلمان بصحت ایمان اس طرح کی جرأت کس طرح کر سکتا ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو اس کا تصور بھی کفر ہے، چونکہ اعظمی صاحب نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں دی ہے، لہٰذا میں بھی اسی پر بس کرتا ہوں ۔