کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 93
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اندیشہ کہ کہیں سنت فرض نہ ہو جائے۔‘‘ اس کے تحت وہ چار حدیثیں لائے ہیں : ۱۔ پہلی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز تراویح با جماعت جاری نہ رکھنے سے متعلق ہے کہ اس طرح وہ فرض نہ ہو جائے۔ [1] ۲۔ دوسری حدیث مسلمانوں کو بے جا اور لا یعنی سوالوں سے باز رکھنے سے متعلق ہے جس کی تعبیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جو کسی چیز کے بارے میں سوال کرے اور اس کے اس سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو جائے۔ [2] ۳۔ تیسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مکہ کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے لیے دعا کی ہے اسی طرح میں نے مدینہ کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے مُد اور صاع میں برکت کی دعا کی ہے۔ [3] ۴۔ چوتھی حدیث وہ ہے جس میں حج کی فرضیت کی آیت نازل ہونے کے بعد ایک صحابی کے اس سوال کا ذکر ہے کہ: ’’کیا یہ ہر سال فرض ہے؟‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ: ’’اگر میں اس سوال کے جواب میں ’’ہاں ‘‘ کہہ دیتا تو یہ فرض ہو جاتا‘‘ یہ حدیث ترمذی میں علی رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے۔ [4] شاہ ولی اللہ نے صفحہ ۲۶۱ پر دو عنوانات قائم کیے ہیں ؛ (۱) ’’اختلفت شرائع الأنبیاء لأسباب ومصالح‘‘ انبیاء کی شریعتیں اسباب ومصالح کے پیش نظر مختلف رہیں ۔ (۲) ’’من عرف اصل الدین واسباب الاختلاف لم یجد تغییر اولا تبدیلاً‘‘ جس شخص کو دین کی اصل اور اختلاف کے اسباب معلوم ہوں اس کو دین میں کوئی تبدیلی نہیں ملے گی۔ صفحہ ۲۶۲ پر انہوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’اسباب نزول المناہج فی صور خاصۃ‘‘ خاص شکلوں میں طریقہ ہائے کار کے نزول کے اسباب۔ اس عنوان کے تحت انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ انسانوں کو جن احکام کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان کے مزاج اور موروثی حالات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو جسمانی صلاحیتوں ، زبان اور کریہہ المنظر جانوروں کی مثالیں دے کر سمجھایا ہے۔ صفحہ ۲۶۳ پر شاہ صاحب نے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’الطیب والخبیث فی الإسلام کان مفوضا إلی عادات العرب‘‘ اسلام میں پاک وناپاک، حلال وحرام اور عمدہ اور بری چیزیں عربوں کی عادات کے پیش نظر ہیں ۔ اس عنوان کے تحت انہوں نے جو مثالیں دی ہیں ان میں پہلی مثال اونٹ کے گوشت اور دوودھ کی ہے جو بنواسرائیل کے لیے حرام تھا اور بنو اسماعیل کے لیے حلال، اور دوسری مثال بھانجی کی دی ہے جس سے نکاح کرنا
[1] بخاری، ۷۲۹۰، مسلم: ۷۸۱ [2] مسلم: ۲۳۵۸ [3] بخاری: ۲۱۲۹، مسلم: ۱۳۶۰ [4] ترمذی ، نمبر ۸۱۴، ۳۰۵۵۔ مسند ، نمبر ۲۳۰۴، ۴۶۴۲ ، ص ۲۶۰۔