کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 91
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا۔‘‘ اس لیے کہ آپ کے اس دعوے سے یہ لازم آتا ہے کہ ’’تکمیل دین‘‘ کا یہ اعلان الٰہی عارضی تھا اور اس کے ایک بنیادی ماخذ ’’حدیث‘‘ کے قابل تغیر ہونے کی وجہ سے اب اس کے مکمل ہونے کا دعویٰ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس کا یہ تقاضا ہے کہ کوئی اور نبی اور رسول مبعوث ہو اور اس ناقص دین میں اپنی ’’بصیرت‘‘ سے نیا رنگ بھرے، مگر مشکل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بنا کر قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت ورسالت پر مہر لگا دی ہے۔ (سورۂ احزاب: ۴۰) ایسی صورت میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں رہ گیا ہے کہ قرآن پاک کی تشریح وتبیین کے لیے الطاف احمد اعظمی، ڈاکٹر افتخار برنی اور جاوید احمد غامدی اینڈ کمپنی کو موقع دیا جائے!!! الطاف احمد اعظمی نے اپنی اس ’’ہرزہ سرائی‘‘ کا جو سبب یبان فرمایا ہے وہ اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہے، فرماتے ہیں : ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تشریحات رسول کا بڑا حصہ عربی عہد کے تہذیبی حالات اور عربوں کے عادات ورسوم کے مطابق ہے۔‘‘ موصوف نے اپنے اس دعوے کو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، اولاً تو شاہ ولی اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے، ثانیا اگر انہوں نے ایسا کوئی دعویٰ کیا بھی تھا تو اعظمی صاحب کو اس پر تبصرہ کر کے اس کی غلطی واضح کرنی تھی، یا کم از کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات قرآنی سے مثال دے کر اس کو واضح کرنا تھا، یہ اس لیے کہ اس کی زد جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت پر پڑتی ہے، وہیں خود قرآن پر بھی پڑتی ہے، تفصیلات درج ذیل ہیں : ۱۔ کسی عبارت کی تشریح وتبیین اس عبارت کے مجمل بیان کے خلاف نہیں ہوتی، بلکہ صرف اس کے اجمال کو کھول دیتی ہے اور بیان کر دیتی ہے۔ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات قرآنی کا ’’بڑا حصہ عربی عہد کے تہذیبی حالات اور عربوں کے عادات ورسوم کے مطابق تھا۔‘‘ تو اس سے دو باتیں لازم آتی ہیں : (ا)… خود قرآن پاک کا بڑا حصہ اجمالاً عربی عہد کے تہذیبی حالات اور عربوں کے عادات ورسوم کے مطابق ہے۔ (ب)… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ اپنے فرض منصبی سے تجاوز کر کے قرآنی آیات کی ایسی تشریحات کی ہیں جن کی ان کے الفاظ میں گنجائش نہیں ہے۔ اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کی زد قرآن پر پڑتی ہے، حدیث پر نہیں ، اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد یا بڑا مقصد عربوں کی اصلاح نہیں ان کی ہمنوائی کرنا تھا، قرآن کے بارے میں ایسا عقیدہ کفر ہے۔ اور اگر دوسری صورت صحیح ہے تو ایسا دعویٰ کرنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگاتا ہے کہ آپ قرآنی آیات کی