کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 90
اعظمی کا اصلی چہرہ: الطاف احمد اعظمی نے وحی کی حقیقت کے بیان میں اب تک جو کچھ فرمایا تھا اپنے چہرے پر مصنوعی نقاب ڈال کر فرمایا تھا اور جب انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ ’’علوم القرآن‘‘ کے ذمہ دار اور قاری ان کے مسموم افکار کو ہضم کر لینے کی استعداد پیدا کر چکے ہوں گے تو انہوں نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا اور اصل چہرے کے ساتھ سامنے آگئے فرماتے ہیں : ’’… وحی ہر دور کے لیے ہے اور حالات اور زمانے کی تبدیلی کے باوجود نا قابل تغیر ہے، لیکن کلام رسول جو وحی کی عملی تبیین وتشریح ہے، قرآن کی طرح نا قابل تغیر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تشریحات رسول کا بڑا حصہ عربی عہد کے تہذیبی حالات اور عربوں میں عادات ورسوم کے مطابق ہے، یہی وجہ ہے کہ عہد خلافت بالخصوص خلیفہ دوم کے عہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فیصلوں کے برعکس فیصلے کیے گئے اور کسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا۔‘‘[1] ((کبرت کلمۃ تخرج من أفواہم إن یقولون إلا کذباً۔)) اعظمی کی غلط بیانی: الطاف احمد اعظمی کا یہ ارشاد ہے: وحی ہر دور کے لیے ہے اور حالات اور زمانے کی تبدیلی کے باوجود نا قابل تغییر ہے، لیکن کلام رسول جو وحی کی عملی تبیین وتشریح ہے، قرآن کی طرح نا قابل تغییر نہیں ہے‘‘ حدیث سے متعلق جہاں ان کے بیمار ذہن کی پیداوار ہے، وہیں غلط بیانی بھی ہے، یہ اس طرح کہ اس ارشاد سے یہ لازم آتا ہے کہ اسلامی شریعت تغیر پذیر ہے یا قابل تغیر ہے، کیونک اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ اسلامی شریعت قرآن کی اصولی تعلیمات واحکام اور بصورت حدیث یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقاریر پر مبنی ہے، اب اگر بقول آپ کے اس شریعت کا قرآنی ماخذ تو نا قابل تغیر ہے، مگر اس کے جو احکام حدیث یا سنت سے ماخوذ ہیں ، وہ حدیث یا سنت کے قابل تغیر ہونے کی وجہ سے تغیر پذیر ہیں ، بلکہ عملی طور پر تبدیل ہو بھی چکے ہوں گے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت پر چودہ صدیوں سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد اب یہ شریعت اس شکل میں باقی نہیں رہی جس شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑا تھا، یا کم از کم اس شریعت کا وہ حصہ جو احادیث پر مبنی ہے، حدیث کے قابل تغیر ہونے کی وجہ قابل عمل نہیں رہا اور اس کی وجہ سے ان احادیث سے ماخوذ ومستنبط تمام فقہی احکام بھی دریا برد کر دیے جانے کے مستحق قرار پائے، کیونکہ یقینی طور پر یہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کہ کون سا کلام رسول بدلا ہے اور کون سا محفوظ ہے پوری شریعت اور اس شریعت پر مبنی پورا فقہی ذخیرہ مشکوک ہو چکا ہے؟!! پھر آپ کے اس باطل دعوے کی سب سے بڑی زد قرآن کے اس اعلان پر پڑتی ہے کہ: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳)
[1] ص ۳۰