کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 89
وحی‘‘ نہ ہونے کے آپ کے دعوے کی دلیل کیا ہے؟ پھر اس سوال سے مزید دو سوال اور پیدا ہوتے ہیں : (ا)… بلاشبہ قران پاک لفظ ومعنی دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سورۂ قیامہ کی آیات کے مطابق نزول قرآن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اپنی زبان کو اس لیے حرکت دیتے تھے تاکہ آپ قرآن کے الفاظ کو نزول وحی کی تکمیل سے پہلے ہی یاد کر لیں ، مگر اس سے یہ کہاں لازم آیا کہ ہر وحی اسی طرح قرآن کے مانند ہو جس طرح قرآن ہے کہ وہ حروف ومعانی کے ساتھ اللہ کا کلام ہے؟ (ب)… پانی پر لاٹھی مارنا کہ وہ خشک ہو جائے اور اس میں راستہ بن جائے، ایک انتہائی محیر العقول معجزہ تھا جس کا تصور موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام جیسے اولوالعزم رسول کا ذہن بھی نہیں کر سکتا تھا، اتنے بڑے معجزے کی وحی کو الفاظ سے عاری محض دل میں القا کی جانے والی تدبیر قرار دینے کی دلیل کیا ہے؟ بلکہ آپ کا یہ ارشاد خود آپ کے اس دعوے کے خلاف ہے کہ قرآن کے علاوہ ہر وحی معروف معنی میں وحی نہیں تھی، بلکہ لغوی معنی میں وحی تھی۔ قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جبریل نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا ہے: (سورۂ بقرہ: ۹۷) اور حدیث کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((إن الروح الأمین قد اَلقی فی روعی…)) در حقیقت روح الامین نے میرے دل میں ڈال دیا ہے۔‘‘ [1] اور ’’الا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ‘‘ غور سے سن لو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کا ہم مثل… [2] اللہ ورسول کے کلام میں اس معنوی مطابقت کے باوجود کس طرح قرآن معروف معنی میں ’’وحی‘‘ قرار پایا اور حدیث لغوی معنی میں ؟ ایک حدیث کے الفاظ ہیں : ((أتانی جبریل علیہ السلام ، فقال: مرأصحأبک فلیر فعوا أصواتہم بالإہلال۔)) ’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اپنے اصحاب کو حکم دیجئے کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ کہیں ۔‘‘ [3] سوال یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی طرف سے کہی تھی یا اللہ کے حکم سے کہی تھی؟ اور کیا یہ لغوی وحی تھی؟ اور کیا انہوں نے یہ بات آپ کے دل میں ڈالی تھی یا آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کا پیغام پہنچایا تھا؟ اس مثال سے آ پ کے اس دعوے کے جڑ بھی کٹ جاتی ہے کہ: ’’وحی کا اطلاق صرف قرآن پر ہوتا ہے جو لفظا اور معنا دونوں طرح محفوظ ہے۔‘‘[4]کیونکہ اس سے وحی کی وہ قسم (حدیث) بھی ثابت ہو تی ہے جو حکما اور معناً تو من جانب اللہ ہے، لیکن الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ہیں ۔
[1] الاسماء والصفات: ۴۲۷، الرسالہ ص ۹۹ [2] ابو داود: ۴۶۰۴، ترمذی: ۲۶۶۴، ابن ماجہ ۱۲ [3] مسند امام احمد: ۱۶۶۷۲، ۱۶۶۸۳، ۱۶۶۸۴، ۱۶۶۸۵ [4] ص ۳۳