کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 88
طریقے سکھاتا رہا ہے۔ ثانیا اللہ تعالیٰ نے ام موسیٰ علیہما الصلاۃ والسلام کو جو گراں بار احکام دیے تھے اور ان کو جس دل ہلا دینے والی آزمائش میں ڈالا تھا اس کے لیے نہایت واضح، نہایت یقینی اور نہایت اطمینان بخش طریقے کی ضرورت تھی اور یہ طریقہ صرف وحی کا طریقہ تھا، ورنہ وہ اپنے لخت جگر کو خود اپنے ہاتھوں دریا میں نہیں ڈال سکتی تھیں ۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جہاں یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے بچے کے حق میں کوئی خوف واندیشہ نہ کریں وہیں ان سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ان کے بچے کو ان کی گود میں واپس لائے گا، اور اس کو رسول بھی بنائے گا، تو اتنے واضح احکام اور اتنے یقینی وعدوں کی گنجائش الہام میں کہاں ہے؟ قرآن کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حدیث کی شکل میں جو احکام دیے ہیں وہ بھی بذریعہ الہام نہیں ، بلکہ بذریعہ وحی ہی تھے جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل میں ڈال دینے کی تعبیر اختیار فرمائی ہے وہ بھی شرعی وحی تھی اور اعظمی صاحب کا یہ دعویٰ ایک ’’بڑ‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہ: ’’وہ معروف معنی میں وحی نہیں تھی، بلکہ خاص لغوی معنی میں وحی تھی۔‘‘[1] انہوں نے اپنے اس دعوے کی تائید میں سورۂ تحریم کی آیت: ﴿نَبَّاَنِی الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ﴾ ’’مجھے اس نے خبر دی ہے جو سب کچھ جاننے والا ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘ (۳) اور سورۂ شعراء کی آیت: ﴿فَاَوْحَیْنَا اِِلٰی مُوْسٰی اَنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ﴾ ’’تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔‘‘ (۶۳) سے استدلال کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ: کھلی بات ہے کہ یہ وحی الفاظ کے ساتھ نہیں آئی ہوگی، بلکہ اس ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کی یہ ایک تدبیر تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے دل میں القا کی گئی تھی۔ [2] تو انہوں نے ان دونوں آیتوں سے یہ استدلال دراصل اپنے اس دعویٰ کو درست ثابت کرنے کی غرض سے کیا ہے کہ: ’’شرع میں جب وحی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ مخصوص ربانی ہدایت ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے اہل ایمان کو ملی ہے اور اس حکم وہدایت کا نام قرآن ہے۔‘‘[3] میں موصوف سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں : ۱۔ آپ نے جس وحی کی یہ تعریف فرمائی ہے اور جس کا مصداق صرف قرآن کو بتایا ہے وہ کس شرع میں آئی ہے، شرع اسلامی میں تو نہیں آئی ہے، لہٰذا ازراہ کرم بتا دیں کہ یہ بات آپ کی شرع میں آئی ہے، اصلاحی شرع میں یا علوم القرآن نکالنے والوں کی شرع میں ؟ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس زوجہ محترمہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خبر دی تھی اس کو معروف معنی میں وحی نہ ماننے اور موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیے جانے والے حکم کو دل میں ڈال دی جانے والی تدبیر قرار دینے اور اس کے ’’لفظی
[1] ص ۳۰ [2] ص ۳۱ [3] ص ۲۰