کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 87
انسانوں سے اللہ کے کلام کرنے، یا ان میں سے کسی کے پاس بذریعہ وحی اس کے اپنا پیغام بھیجنے کی یہ صورت رسولوں کے لیے خاص نہیں تھی، بلکہ اس طرح اس نے غیر انبیاء کو بھی وحی کی ہے اور جبریل علیہ السلام نے اس کے حکم سے انسانی شکل اختیار کر کے ان کو اس کا پیغام پہنچایا ہے، ان غیر انبیاء میں ام عیسیٰ، مریم علیہما الصلواۃ والسلام کے حق میں تو قرآن یہ تصریح کرتا ہے کہ جبریل علیہ السلام ان کے پاس ایک مکمل انسان کی شکل میں تشریف لائے تھے۔ (سورۂ مریم: ۱۷) دوسری شخصیت ام موسیٰ علیہما الصلواۃ والسلام کی ہے جن کے حق میں قرآن یہ تصریح تو نہیں کرتا کہ جبریل علیہ السلام ان کے پاس بھی انسانی شکل میں تشریف لائے تھے، البتہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی﴾ (القصص: ۷) ’’اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی‘‘ سورۂ شوریٰ کی زیر بحث آیت کی روشنی میں اس کے علاوہ یہ کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی جبریل علیہ السلام کے ذریعہ ہی وحی کی ہوگی، کیونکہ وہ نبی یا رسول نہیں تھیں کہ ان کے پاس جبریل علیہ السلام بصورت فرشتہ آتے، یا اللہ تعالیٰ نے ان سے اس طرح براہ راست پردہ کے پیچھے سے بات کی ہو جس طرح موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کی تھی، اس لیے کہ قرآن کی صراحتوں کے مطابق یہ فضیلت موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لیے خاص تھی، اس طرح ان سے اللہ کے کلام کرنے یا ان کو وحی بھیجنے کی یہی تیسری صورت رہ جاتی ہے۔ جن مفسرین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام موسیٰ علیہما السلام کو ’’الہام‘‘ کیا تھا[1] تو ان کا یہ دعویٰ قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہ رکھنے کے ساتھ صوفیانہ ذوق کی پیداوار ہے: اولاً تو اللہ تعالیٰ نے ’’أوحینا‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے اور ’’وحی‘‘ الہام سے بالکل مختلف چیز ہے؛ الہام محض ایک خیال، ایک رجحان اور ایک جذبہ ہے جو کسی انسان کے دل میں ابھرتا ہے اور پیدا ہوتا ہے، اگر یہ نیکی اور خیر سے متعلق ہو تو اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر بھی مبہم اشارہ سے زیادہ کچھ نہیں اور محض اس کی بنیاد پر کوئی عملی اقدام جائز نہیں ہے اور اگر یہ شر اور برائی سے متعلق ہو تو شیطانی خیال ہے، چونکہ صوفیا کے تمام عقائد اور اعمال ان کے ذوق کی پیداوار ہیں ، اور ان کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ الہام کا بہت سہارا لیتے ہیں اسی لیے تصوف کی کتابوں میں الہام پر بہت زور دیا گیا ہے۔ علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ الہام ماخذ شرع نہیں ہے، قرآن پاک میں اس کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے اور انسانوں کی سرشت اور فطرت میں ودیعت اللہ کے غضب سے بچنے اور اس کی نافرمانی کرنے کے اس مبہم میلان اور جذبے کے طور پر جو واضح شرعی احکام کا محتاج ہے۔ اس کے بالمقابل وحی ایک یقینی ذریعہ علم ہے، یہی تمام شریعتوں کا ماخذ رہی ہے اور اسی ذریعہ سے تمام رسولوں پر اللہ کی کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں اور اسی ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو اپنی کتابوں کی تشریح اور تبیین کے
[1] تھانوی ، بیان القرآن ، ص ۷۵۸