کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 86
بالکل سچ فرمایا ہے کہ: ((وأجمع النحو یون علی أنک إذا أکدت الفعل بالمصدر لم یکن مجازاً۔)) ’’علمائے نحو کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب تم فعل کی مصدر سے تاکید کر دو تو وہ مجازی معنی میں نہیں رہ جاتا۔‘‘ [1] مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں اس دعوے سے کہ: اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے درخت کے توسط سے کلام کیا تھا‘‘ یہ آیت اور وہ تمام آیتیں بے معنی ہو جاتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ خصوصی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ اس نے ان سے براہ راست اور بلا واسطہ بات کی تھی۔ اس بات کا بڑا امکان ہے کہ الطاف احمد اعظمی نے یہ نظریہ ’’سر سیّد خاں ‘‘ کی تفسیر سے لیا ہوجو معتزلی تھے اور انہوں نے اپنی تفسیر میں ’’تاویل‘‘ کے نام سے بڑی ’’تحریفات‘‘ کی ہیں اور مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے بجا طور پر اس کو ’’کار معصیت‘‘ قرار دے دیا تھا۔ دراصل معتزلہ اور متکلمین کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے درخت میں اپنے کلام کو وجود بخشا جس سے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اسے سنا‘‘[2] مگر قرطبی اشعری متکلم ہوتے ہوئے بھی اس آیت کی تفسیر میں حق بات فرما گئے، فرماتے ہیں : ((’’تکلیما‘‘ مصدر معناہ التأکید؛ یدل علی بطلان من یقول: خلق لنفسہ کلاماً فی شجرۃ، فسمعہ موسی، بل ہوا الکلام الحقیقی الذی یکون بہ المتکلم متکلما۔)) ’’(تکلیما) مصدر ہے جس کے معنی تاکید کے ہیں ، یہ اس شخص کے دعوے کے باطل ہونے پر دلالت کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ نے ایک درخت میں کلام کی تخلیق فرمائی اور موسیٰ نے اسے سنا، بلکہ یہ ایسا حقیقی کلام ہے جس کا بولنے والا ہی متکلم قرار پاتا ہے۔‘‘ [3] انسانوں سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی تیسری صورت آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ: ’’اللہ اپنا کوئی رسول فرشتہ بھیجے جو اس کے حکم سے اس بات کی وحی کرے جو وہ چاہے۔‘‘ یہ تیسری صورت وہی ہے جس کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۲ میں آیا ہے کہ: ((وأحیانا یتمثل لی الملک رجلا فأعی ما یقول۔)) ’’اور کبھی فرشتہ میرے لیے ایک مرد کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو وہ جو کہتا ہے اسے میں سمجھ کر سینے میں محفوظ کر لیتا ہوں ۔‘‘
[1] الجامع الأحکام القرآن ص ۳۰۲، ج ۳ [2] شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص: ۲۸۰ ج ۱ [3] ص ۳۰۲، ج ۳