کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 85
اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (القصص: ۳۰) ’’تو جب وہ اس کے پاس آیا تو مبارک قطعہ میں وادی کے دائیں کنارے کے درخت سے پکارا گیا کہ اے موسیٰ! در حقیقت میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہانوں کا رب۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’مِن الشجرۃ‘‘ کا فقرہ یہ بتا رہا ہے کہ موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جو ’’ندا‘‘ آئی تھی وہ درخت کی طرف سے آ رہی تھی جو وادی کے دائیں کنارے پر اُگا ہوا تھا، وادی کا دایاں کنارا وسیع تھا جس میں سے ایک جگہ مذکورہ درخت اُگا ہوا تھا اور اسی درخت کی سمت اور جہت سے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی ندا سنی تھی، سورۂ مریم میں ہے: ﴿وَ نَادَیْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ﴾ (مریم: ۵۲) ’’اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا۔‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے جو کلام کیا تھا وہ درخت کے توسط سے نہیں ، بلکہ براہ راست کیا تھا اور انہوں نے یہ کلام طور پہاڑ کی وادی کے دائیں کنارے پر اگے ہوئے ایک درخت کی جانب سے سنی تھی، نہ کہ درخت کے توسط سے، اس لیے کہ درخت کے توسط یا واسطہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ درخت اللہ تعالیٰ سے اس کا کلام وصول کر کے اپنی زبان میں یا اپنی آواز میں اسے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پہنچا رہا تھا، جس طرح جبریل علیہ السلام قرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاتے تھے، قرآن کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا، بلکہ یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بذات خود موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ہم کلام ہوا تھا اور انہوں نے آواز، اور حروف ومعانی کے ساتھ اس کا کلام سنا تھا۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی تائید ان آیتوں سے بصراحت ہوتی ہے جن میں موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا ذکر آیا ہے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۶۴ کا آخری فقرہ ہے: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾ (النساء: ۱۶۴) ’’اور اللہ ہی نے موسیٰ سے کلام کیا۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’تکلیما‘‘ فعل ’’کلم‘‘ کا مصدر ہے جس کا اصطلاحی نام ’’مفعول مطلق‘‘ ہے، اسی وجہ سے منصوب ہے، اس طرز تعبیر سے فاعل کی طرف فعل کی نسبت کو یقینی اور مؤکد بنانا ہوتا ہے اس تناظر میں آیت کا مطلب ہے کہ اور اللہ ہی نے موسیٰ سے کلام کیا تھا‘‘ یا اللہ نے موسیٰ سے حقیقۃً کلام کیا تھا، جن اردو مترجمین نے آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے: اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کلام فرمایا‘‘ (تھانوی) یا ’’اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا‘‘ (حافظ عبدالسلام) یا ’’اور کلام کیا اللہ نے موسیٰ سے (خاص طور پر) کلام (حافظ صلاح الدین) تو یہ تمام ترجمے جہاں ’’دقیق‘‘ نہیں ہیں ، وہیں ان میں ’’تکلیما‘‘ کا الگ سے اعتبار کیا گیا ہے، جبکہ یہ ایک طرز تعبیر ہے جس کے تمام اجزا باہم مل کر ایک خاص اور حقیقی مفہوم دیتے ہیں ، اور واسطہ اور توسط کے تمام احتمالات کا خاتمہ کر دیتے ہیں ، اور قرطبی نے