کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 84
جو اصل میں ’’إلا أن یوحِیَ وحیاً‘‘ ہے اور جس سے عام طور پر مفسرین نے وہ وحی یا الہام مراد لیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اور آپ سے پہلے کے انبیاء اور رسولوں کے دلوں میں ڈال دیا جاتا تھا، تو یہ وحی بھی فرشتہ کے واسطہ سے ہوتی تھی اور دوسری صورت کے لیے ’’من وراء حجاب‘‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اعظمی صاحب نے اس کو بھی درخت کے توسط سے کی جانے والی وحی قرار دیا ہے اور تیسری صورت: ﴿اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِہِ مَا یَشَائُ﴾ کا بالواسطہ ہونا تو خود واضح ہے، اس طرح یہ ساری وحیاں بالواسطہ ہی قرار پائیں ، فتدبر وافہم۔ دراصل اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے اپنے ہم کلام ہونے یا بات کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں اور پہلی صورت بیان کرنے سے پہلے پوری قطعیت کے ساتھ اس امکان کی نفی کر دی ہے کہ اس دنیا میں وہ کسی بھی انسان سے رو در رو بات کرے، اس کے فوراً بعد حرف ’’استثنا‘‘ ’’إلا‘‘ کے ذریعہ انسانوں سے اپنے بات کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں ، جن میں سے پہلی صورت ’’وحی‘‘ کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی رہی ہے یہی وہ وحی ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور ان کو شرعی احکام دیے اور یہ وحی بھی جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے ہی ان کو کی جاتی تھی، واضح رہے کہ اس زمین میں اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے سب کے ساتھ کتابیں بھی بھیجیں ۔ (سورۂ حدید: ۲۵) وحی کی یہ سب سے اعلیٰ، سب سے واضح اور سب سے زیادہ یقینی قسم تھی جس سے صرف اللہ کے نبی اور رسول سرفراز کیے جاتے تھے مولانا تھانوی نے آیت میں ’’وحیا‘‘ کا ترجمہ ’’الہام‘‘ کیا ہے جو کسی بھی تاویل سے درست نہیں ہے، کیونکہ الہام مأخذ شرع نہیں ہے، بلکہ دل میں پیدا ہونے والے مبہم اور غیر یقینی جذبہ خیر یا شر سے عبارت ہے اس وحی میں وہ وحی بھی داخل ہے جس کے لیے ’’دل میں ڈال دینے‘‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اور یہ وحی بھی جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اور واسطہ سے کی جاتی تھی۔ [1] آیت میں کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے یا بات کرنے کی جو دوسری صورت بیان ہوئی ہے وہ کسی واسطہ کے بغیر براہ راست بات کرنے کی صورت ہے، لیکن پردے کے پیچھے سے اس طرح کہ موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کا کلام تو سنا، مگر اس کو دیکھا نہیں ۔ الطاف احمد اعظمی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ: اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے درخت کے توسط سے کلام کیا تھا، انہوں نے اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں سورۂ قصص کی آیت نمبر ۳۰ کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا ہے، آیت اور اس کا ترجمہ نہیں نقل کیا ہے، اگر وہ آیت اور اس کا ترجمہ بھی نقل کر دیتے تو ان کے اس دعوے کی قلعی کھل جاتی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلَمَّآ اَتٰہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ
[1] الأسماء والصفات حدیث نمبر ۴۲۷، الرسالہ ص ۹۹، فقرہ نمبر ۳۰۶