کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 83
ہیں جو دور سے دی جائے، یا دور سے آئے اور بلند ہو۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اور بلا واسطہ بات صرف ایک بار کی تھی، اس ایک بار کے علاوہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جبریل علیہ السلام کے واسطہ ہی سے وحی کی صورت میں ملتے رہے یہی حال تمام دوسرے نبیوں اور رسولوں کا بھی رہا جس سے ہمارے نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر عام طور پر اس طرح حاضر ہوتے تھے کہ وہ غیر مرئی اور غیر مشاہد ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف ان کی آواز سنتے تھے، ان کا مشاہدہ نہیں کرتے تھے، قرآن پاک اسی صورت میں نازل ہوتا تھا۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ جبریل علیہ السلام انسانی صورت اختیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کو اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے جس کی واضح ترین مثال ’’حدیث جبریل‘‘ ہے۔ [1]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۲ میں نزول وحی کی یہی دونون صورتیں بیان ہوئی ہیں جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کوئی بات ڈال دینے کی خبر دی گئی ہے تو یہ بھی وحی ہی کی قسم تھی اور یہ وحی بھی جبریل علیہ السلام لاتے تھے یعنی یہ بھی بالواسطہ ہی ہوتی تھی، اس وحی کے دلائل بھی اوپر گزر چکے ہیں ۔
مذکورہ بالا وضاحتوں سے اس دعویٰ کی نکارت کو سمجھنا آسان ہو جائے گا جو اعظمی صاحب نے کیا ہے موصوف فرماتے ہیں :
قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وحی یعنی حکم وہدایت کبھی تو براہ راست ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ، خواہ یہ واسطہ کوئی مادی ذریعہ ہو، جیسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے درخت کے توسط سے کلام کیا تھا (سورۂ قصص: ۳۰) یا غیر مادی، ان تینوں ذریعوں کا ذکر ایک ساتھ ہوا ہے، فرمایا گیا ہے:
﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِہِ مَا یَشَائُ﴾ (الشوریٰ: ۵۱)
’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر (کسی وسیلہ سے، مثلاً) وحی والہام سے، پردے کے پیچھے سے، یا کوئی رسول بھیجے، پھر وہ اس کے حکم سے جو اس کو منظور ہو پہنچا دے۔‘‘
یہ ترجمہ الطاف احمد اعظمی صاحب کا ہے، انہوں نے اوپر جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ: اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے درخت کے توسط سے کلام کیا تھا‘‘ اس کو درست ماننے کی صورت میں مذکورہ بالا آیت کریمہ سے وحی کے تین ذریعے ثابت نہیں ہوتے، بلکہ صرف ایک ہی ذریعہ ثابت ہوتا ہے اور یہ اس طرح کہ پہلی صورت جس کا ذکر ’’وحیاً‘‘ کہہ کر کیا گیا ہے اور
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر ۸