کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 82
غور فرمائیے! یہ بھی فرمایا: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور در حقیقت یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد ہی یہ بھی فرما دیا کہ: ﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ﴾ ’’اسے امانت دار روح نے نازل کیا ہے۔‘‘
اگر آپ نے صحیح بخاری کی دوسری حدیث بھی دیکھ لی ہوتی اور اس کے ساتھ قرآن پاک کی کسی ایک ہی ایسی آیت پر نظر ڈال لیتے جس میں قرآن پاک نازل کرنے کے فعل کو جبریل علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے، مثلاً:
﴿قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۹۷)
’’کہہ دو! جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو اسی نے اللہ کے حکم سے اسے تیرے دل پر نازل کیا ہے۔‘‘
تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ ہروحی بالواسطہ ہی نازل ہوتی تھی ، دراصل سورۂ شعراء کی آیت نے اللہ تعالیٰ کے قرآن نازل کرنے اور جبریل علیہ السلام کے نازل کرنے کی حقیقت بھی بیان کر دی؛ اللہ کے پاس سے اور اس کے حکم سے نازل کیے جانے کی وجہ سے وہ اللہ کا نازل کردہ اور ’’منزل من اللہ‘‘ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نازل کیے جانے کی وجہ سے اس کی نسبت جبریل علیہ السلام کی طرف بھی کی گئی ہے، بلکہ سورۂ حاقہ (۴۰۔۴۱) اور سورۂ تکویر (۱۹۔۲۱) میں تو اس کو ان کا قول تک کہا گیا ہے، کیونکہ انہیں نے اسے اپنی زبان سے ادا کیا ہے، سنایا ہے اور پہنچایا ہے۔
توسط یا واسطہ:
توسط یا واسطہ کے معنی ذریعہ یا وسیلہ کے ہیں قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے علاوہ اپنے کسی نبی یا رسول سے براہ راست یا بلا واسطہ کلام نہیں کیا ہے صرف موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات ایسی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی واسطہ کے بغیر اپنے کلام سے نوازا ہے اسی وجہ سے فرمایا:
﴿قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ﴾ (الاعراف: ۱۴۴)
’’فرمایا اے موسیٰ! در حقیقت میں نے تجھے لوگوں پر اپنے پیغاموں اور کلام کے ساتھ فضیلت بخشی ہے۔‘‘
جہاں تک رسالت کا مسئلہ ہے تو یہ تمام رسولوں میں قدر مشترک تھی، البتہ ہر رسول اپنی قوم میں تنہا اس صفت سے موصوف ہوتا تھا اس تناظر میں ’’الناس‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی طرف موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔
لیکن جہاں تک ان سے اللہ تعالیٰ کے براہ راست اور بلا واسطہ کلام کرنے کا تعلق ہے تو اس فضیلت میں ان کے ساتھ کوئی اور نبی اور رسول شریک نہیں تھا، اسی وجہ سے پورے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے صرف انہیں سے کلام کا ذکر فرمایا ہے اور مختلف انداز میں ذکر فرمایا ہے۔
موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا کلام ’’وحی‘‘ سے عبارت نہیں تھا، کیونکہ لغت میں ’’وحی‘‘ کے معنی ہیں : ’’الإعلام بسرعۃ وخفاء‘‘ تیزی سے اور خفیہ طریقے پر کوئی بات کہنا، یا خبر دینا، جبکہ موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے بلند آواز میں کلام کیا تھا، جس کے لیے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر ’’ندا‘‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے اور ’’ندا‘‘ اس آواز کو کہتے