کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 81
وَعَیت ما قال: وہو أشدہ علیَّ، ویتمثل لی أحیانا رجلاً فیکلمنی فأعی ما یقول۔)) ’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں : حارث بن ہشام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ فرمایا: یہ سب، کبھی فرشتہ میرے پاس گھنٹی بجنے کی صورت میں آتا ہے اور وہ مجھ سے اس حال میں جدا ہوتا ہے کہ اس نے جو کہا ہوتا ہے اسے میں ذہن میں محفوظ کر چکا ہوتا ہوں ، وحی کی یہ آمد میرے اوپر سب سے سخت ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ میرے لیے ایک مرد کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور مجھ سے بات کرنا ہے، تو وہ جو کہتا ہے اسے میں محفوظ کر لیتا ہوں ۔‘‘[1] اس دوسری حدیث نے پہلی حدیث (نمبر ۲) میں ’’یأتینی‘‘ کی تفسیر کر دی اس سے یہ واضح ہو گیا کہ وحی کی یہ دونوں قسمیں بالواسطہ ہی ہوتی تھیں ، البتہ پہلی قسم میں وحی لانے والا فرشتہ بصورت فرشتہ ہی آتا تھا اور دوسری میں بصورت انسان۔ حدیث کی تشریعی حیثیت کے یہ منکرین اپنے مطلب کی باتیں تلاش کر لیتے ہیں ، لیکن قرآن کی جو آیت یا جو حدیث ان کے مطلب کی نہیں ہوتی اس کا ذکر نہیں کرتے، قرآن پاک میں ایسی آیتیں ہیں جن کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی واسطہ کے بغیر براہ راست قرآن پاک نازل کرتا تھا۔ مثال کے طور پر سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ۳۳ سے آیت نمبر ۵۷ تک آل عمران کے واقعات بیان فرمائے ہیں اور آیت نمبر ۵۸ میں ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ذٰلِکَ نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ﴾ (آل عمران: ۵۸) ’’یہ جو ہم تمہیں آگے پیچھے لگا تار سنا رہے ہیں آیتیں ہیں اور حکمت بھرا ذکر۔‘‘ ’’فعل غائب‘‘ کے مقابلے میں ’’فعل متکلم‘‘ کا فاعل زیادہ متعین اور زیادہ یقینی ہوتا ہے اور یہاں تو فعل تعظیمی: ’’نتلو‘‘ نے اس امر کی مزید تاکید کر دی ہے کہ یہ ’’آیات‘‘ اور ’’ذکر حکیم‘‘ سنانے والا اور بیان کرنے والا اللہ عزوجل ہے، تو کیا ہم ان تمام تاکیدات سے یہ سمجھیں کہ مذکورہ آیتیں یا قرآن پاک کی دوسری آیات اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بدون واسطہ، یا ’’براہ راست‘‘ سناتا تھا؟ یا قرآن ہی کی دوسری آیتوں کی روشنی میں یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتا تھا، مثلاً اس کا ارشاد ہے: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (الشعراء: ۱۹۲۔ ۱۹۴) ’’اور در حقیقت یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے اما نت دار روح نے تیرے دل پر نازل کیا ہے تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ایک ہو جائے۔‘‘
[1] بخاری، نمبر ۳۲۱۵