کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 80
کی عبادتوں کو ان سے بھی منسوب کیا ہے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیحَہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ﴾ (النور: ۴۱) ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ در حقیقت آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اور پر پھیلائے جو پرندے اڑ رہے ہیں وہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو یہ کرتے ہیں ۔‘‘ اور سورۂ نحل میں ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ (النحل: ۴۹) ’’اور اللہ ہی کا سجدہ کرتے ہیں آسمانوں اور زمین میں جو جاندار ہیں اور فرشتے اور وہ بڑائی نہیں جتاتے۔‘‘ قرآن و حدیث سے استدلال کا اصول: کسی بھی مسئلہ میں اثباتا یا نفیاً قرآن وحدیث سے استدلال کا اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ اس مسئلہ سے متعلقہ آیتوں اور حدیثوں پر ایک نظر ڈال لی جائے، پھر ان کے مجموعہ سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں اس مسئلہ پر کوئی حکم لگایا جائے، یہ صحیح ہے کہ نہ قرآنی آیات ایک دوسری کے متعارض ہیں ، اور نہ صحیح احادیث میں کوئی اختلاف ہے، اس طرح نہ قرآن حدیث کے خلاف ہے اور نہ حدیث قرآن کے، لیکن ان میں اجمال وتفصیل کا اور تعبیرات کا ظاہری اختلاف ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے صحیح حکم معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور صحیح بخاری کی اس حدیث کا ذکر آ چکا ہے جس سے غلط استدلال کرتے ہوئے اعظمی صاحب یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ ’’اس روایت میں بدون واسطہ اور بالواسطہ دونوں طرح کی وحی کا ذکر ہوا ہے۔‘‘ [1]جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں وحی کی جو دو قسمیں بیان ہوئی وہ دونوں بالواسطہ ہی ہیں ، لیکن ان کی سطح بین نگاہ ’’یأتینی‘‘ کی تعبیر کی تہہ تک نہ پہنچ سکی یا وہ اس تعبیر کا صحیح مفہوم سمجھ تو گئے، مگر پہلے سے بدون واسطہ اور بالواسطہ وحیوں کا جو نظریہ ذہن میں جاگزیں تھا، ’’یأتینی‘‘ کی تعبیر کو اس سے بظاہر ہم آہنگ پا کر یہ دعویٰ کر بیٹھے اس دوسری بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اسی صحیح بخاری میں کتاب بداء الخلق کے باب ذکر الملائکہ کے تحت امام بخاری جو ۲۱ حدیثیں لائے ہیں ان میں ایک حدیث نزول وحی ہی سے متعلق ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح کی ہے کہ ہر وحی فرشتہ ہی لاتا ہے اور اس میں ’’یأتینی‘‘ کا فاعل الملک (فرشتہ) ہے حدیث کے الفاظ ہیں : ((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ، أن الحارث بن ہشام، سأل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم : کیف یأتیک الوحی؟ قال: کل ذاک، یأتینی الملک أحیانا فی مثل صَلصَلۃِ الجرس، فیفصم عنی وقد
[1] ص: ۲۱