کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 79
کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماتے تھے۔ قرآن اور دوسری آسمانی کتابیں اسی طریقے سے نازل ہوتی ہیں ۔ (۲)جبریل علیہ السلام بصورتِ انسان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اللہ کا حکم پہنچاتے تھے۔ (۳)اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل علیہ السلام آپ کے دل میں کوئی بات ڈال دیتے تھے۔ پہلی صورت اور طریقہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کے نزول کے لیے خاص تھا اور دوسرے دونوں طریقوں سے جو احکام اور ہدایات آپ کو دی گئی ہیں ان کا نام حدیث یا سنت ہے۔ ان تینوں طریقوں پر وحی کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ تینوں بالواسطہ ہی انجام دی جاتی تھیں ۔ معلوم ہوا کہ وحی قرآن کے نزول کی ایک شکل ہے ذات قرآن نہیں کہ وحی اور قرآن کو آپس میں مترادف مانا جائے۔ آیت میں یہی فرمایا گیا ہے کہ جب قرآن بذریعہ وحی نازل کیا جارہا ہو تو اس کی تکمیل تک اسے خاموشی سے سنتے رہو اور درمیان میں اسے پڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ آپ کے اس ارشاد سے یہ لازم آتا ہے کہ ’’تنزیل‘‘ بھی قرآن کا مترادف ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’در حقیقت یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔‘‘ (شعراء: ۱۹۲) یاد رہے کہ یہاں مصدر ’’تنزیل‘‘ اسم مفعول ’’منزل‘‘ کے معنی میں ہے۔ اعظمی صاحب نے یہ سارا تکلف دانستہ یا نا دانستہ اس لیے کیا ہے تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ وحی کا اطلاق صرف قرآن پاک پر ہوتا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ: قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز پر حقیقی معنی میں وحی کا اطلاق نہیں ہوتا۔[1] اور قران وحدیث دونوں کو وحی قرار دینا بہت بڑا فتنہ ہے: ہمارے بہت سے علماء کی غلطی یہ ہے کہ دونوں طرح کی وحی پر ایک ہی حکم لگا دیا، نتیجہ کے طور پر وہ خود بھی فتنہ میں پڑے اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو بھی مبتلائے فتنہ کیا‘‘[2] ’’اَلا ساء ما یذرون‘‘ اعظمی صاحب سے ایک سوال: میں نے گزشتہ صفحات میں حدیث یا سنت کے ’’وحی الٰہی‘‘ ہونے کی دلیل کے طور پر قرآن اور صحیح احادیث سے جو مثالیں دی ہیں ان کے بعد تو ’’حدیث‘‘ کو محض لغوی وحی قرار دینا ’’ہٹ دھرمی‘‘ ہے، پھر بھی میں موصوف سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ’’اگر آپ کے نزدیک حدیث اور سنت کی شکل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اپنی متعدد صورتوں میں اسی طرح کی وحی تھی جس طرح کی وحی ام موسیٰ علیہما الصلاۃ والسلام کو کی گئی تھی یا جو وحی شہد کی مکھیوں کی جاتی ہے، تو کیا اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری نمازیں ، ہمارے سجدے اور ہماری تسبیحات وغیرہ بھی چرند وپرند، اور نباتات وجمادات کی نمازوں ، سجدوں اور تسبیحات کی طرح ہیں ، اور اگرکوئی یہ دعویٰ کرے کہ اگر ہم احادیث میں بیان کردہ نمازوں کے بجائے، چیونٹیوں کی طرح کی نمازیں پڑھیں ، پہاڑوں کی طرح اللہ کا سجدہ کریں اور درختوں کی طرح اس کی تسبیح اور پاکی بیان کریں تو یہ عبادتیں درست ہوں گی اور عند اللہ مقبول بھی ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح
[1] ص: ۳۰۔ [2] ص: ۳۳