کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 78
سے استدلال کیا ہے جن میں شیطانوں کا ایک دوسرے کو وحی کرنے، ام موسیٰ علیہما الصلاۃ والسلام کو کی جانے والی وحی اور شہد کی مکھیوں کو کی جانے والی وحی کا ذکر آیا ہے اور تان اس دعوے پر توڑی ہے: ’’شرع میں جب وحی کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ مخصوص خدائی ہدایت ہوتی ہے جو پیغمبر کے توسط سے اہل ایمان کو ملی ہے اور اسی حکم وہدایت کا نام قرآن ہے، قرآن اور وحی باعتبار حقیقت مترادف الفاظ ہیں ، جیسا کہ درج ذیل آیت میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ﴾ (طٰہٰ: ۱۱۴) ’’اور اپنی طرف اس کی وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو۔‘‘ موصوف نے اس کے بعد صحیح بخاری کی جو حدیث نقل کی ہے اور جس سے وحی کے بدون واسطہ اور بالواسطہ نزول پر غلط استدلال کیا ہے، اگر وہ اس کے فوراً بعد والی حدیث بھی پڑھ لیتے تو ان کو یہ معلوم ہو جاتا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک خواب کو بھی وحی قرار دیا ہے۔ (نمبر ۳) یقینی سی بات ہے کہ ام المومنین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو لغوی معنی میں وحی نہیں قرار دیا ہوگا، کیونکہ اس وقت اس کا کوئی موقع ومحل نہیں تھا، یاد رہے کہ یہ واقعہ ام المومنین کی پیدائش سے پہلے کا ہے، یعنی وہ اس کی عینی شاہد نہیں تھیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست سن کر یہ واقعہ اپنے منفرد اور خوبصورت اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس حدیث کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ، اور حدیث کی راوی عائشہ رضی اللہ عنہا تینوں کے اسالیب بیان موجود ہیں ، جس سے ام المومنین کی دقت بیانی اور امانت داری کا ثبوت ملتا ہے۔ آپ کو عربی بھی نہیں آتی: الطاف اعظمی کو عربی زبان بھی نہیں آتی، جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی فقرے میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ: قرآن اور وحی باعتبار حقیقت مترادف الفاظ ہیں ‘‘ اور اس دعویٰ پر سورہ طہ کی اس آیت سے استدلال کیا ہے: ﴿وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ﴾ (طٰہٰ: ۱۱۴) ’’اور اپنی طرف اس کی وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’وَحیُہ‘‘ فعل مجہول ’’یُقضی‘‘ کا نائب فاعل اور مصدر ہے بمعنی ’’وحی کیا جانا‘‘ اور مضاف الیہ ضمیر ’’ہ‘‘ سے قرآن مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ: قرآن کے وحی کیے جانے کے عمل کے تمام ہونے سے پہلے وحی شدہ قرآن کو مت پڑھو، بلکہ اس کے مکمل ہونے تک اسے بغور سنتے رہو۔مذکورہ آیت میں صرف یہی فرمایا گیا ہے، دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی تین طریقوں سے نازل ہوتی تھی: (۱)جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے اس کا کلام ، حروف، الفاظ اور معانی