کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 76
جن کا ذکر سورۃ مجادلہ کی پہلی آیت میں آیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴾ (المجادلہ: ۱) ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی، جو تم سے اپنے شوہر کے مسئلہ میں جھگڑ رہی ہے اور اللہ سے شکایت کر رہی ہے، اور اللہ تم دونوں کی بات چیت سن رہا ہے در حقیقت اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ((تبارک الذی وسِعَ سمعَہ کل شئی، الحمداللّٰہ الذی وَسِعَ سمعَہ الأصوات إنی لاَسمع کلام خَوَلۃ بنت ثُعلبۃ، ویخفی علیَّ بعضُہا، وہی تشتکی اِلی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم زوجَہا، وہی تقول: یا رسولَ اللّٰہ! أکل شبابی، ونثرت لہ بطنی، حتی إذا کبرت سِنی، وانقطع ولدی، ظاہر منی ، اللّٰہم، إنی أشکو اِلیک۔ فما بَرِحَت، حتی نزل جبرائیل بہٰوَلاء الآیات: قد سمع اللّٰہ قولَ التی تجادلک فی زوجہا وتشتکی اِلی اللّٰہ۔)) ’’بڑا با برکت ہے وہ جس کی سماعت ہر چیز کو محیط ہے، تعریف صرف اس اللہ کے لیے ہے، جس کی سماعت ہر آواز کو سن رہی ہے۔[1]میں خولہ بنت ثعلبہ کی بات سن رہی تھی، اور اس کی بعض باتیں مجھ پر مخفی رہتیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی: اے اللہ کے رسول! وہ میری جوانی کھا گیا، اور میں نے اس کے لیے بکثرت بچے جنے، یہاں تک کہ جب میں سن رسیدہ ہو گئی، اور بچے جننے کا سللہ منقطع ہو گیا تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا، اے اللہ! میں تیری طرف دست شکایت دراز کر رہی ہوں ، ابھی اس کی شکایت جاری تھی کہ جبرئیل یہ آیتیں لے کے نازل ہو گئے: ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ﴾ [2] نتیجہ بحث: مذکورہ بالا بحث اور مثالوں سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ۱۔ حدیث بھی وحی ہے۔ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین وشریعت کے باب میں کوئی بات اجتہاد ورائے سے نہیں فرماتے تھے۔
[1] نسائی: ۳۴۶۰، بخاری معلق [2] ابن ماجہ: ۲۰۹۳، نسائی: ۳۴۶۰، ابو داود: ۲۲۱۴