کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 75
(۷) ساتویں مثال:… یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ ایک جبہ پوش شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عمرہ کے بارے میں سوال کیا۔ سوال سن کر آپ خاموش رہے۔ یہاں تک کہ آپ پر وحی نازل ہوئی، پھر آپ نے اس کو جواب دیا۔ [1] علمائے حدیث میں اس امر میں اختلاف ہے کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی تھی وہ ’’وحی متلو‘‘ (قرآن) تھی یا وحی غیر متلو (حدیث) حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مجھے کوئی ایسی روایت نہیں معلوم ہے جس میں اس وحی کی تفصیل بیان کی گئی ہو، البتہ طبرانی کی المعجم الاوسط میں دوسری سند سے یہ حدیث مروی ہے کہ اس وقت نازل ہونے والی وحی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھی: ﴿وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔‘‘ [2] لیکن صحیحین کی اس زیر بحث حدیث میں ہے کہ: ’’فلما سُرِّیَ عنہ قال: أین السائل عن العمرۃ؟ إخلع عنک الجبۃَ واغسل أثرالخلوق عنک، وأنق الصفرَۃ، واصنع فی عمرتک کما تصنع فی حجک۔‘‘ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نزول وحی کی کیفیت دور ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: عمرہ کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ تو اپنا جبہ اتار دو، خوشبو کے اثر کو اپنے آپ سے دھو دو، اور زردی کو زائل کر دو، اور اپنے عمرے میں وہی کچھ کرو جو اپنے حج میں کرتے ہو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مذکورہ بالا قرآنی آیت کے علاوہ ہے، لہٰذا اگر اس وقت نازل ہونے والی وحی مذکورہ آیت قرار دی جائے، جیسا کہ طبرانی کی روایت میں ہے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا جو آپ نے نزول وحی کے بعد ہی فرمایا تھا، اس سے یہ لازم آیا کہ قران کی طرح حدیث بھی وحی ہے، جو بعض اوقات قرآن کے ساتھ میں نازل ہوتی تھی۔ صحیحین کی اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین وشریعت سے متعلق کوئی بات اجتہاد وقیاس سے نہیں فرماتے تھے، ورنہ سوال سن کر آپ کی خاموشی چہ معنی دارد؟ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی تائید صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام کے آٹھویں باب کے عنوان سے ہوتی ہے جو یہ ہے: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا جس کے حق میں وحی نازل نہ ہوئی ہوتی، تو فرماتے: لاأدری مجھے معلوم نہیں ، یا وحی نازل ہونے تک خاموش رہتے اور رائے اور قیاس سے جواب نہ دیتے۔ (۸) آٹھویں مثال:… کسی شرعی مسئلہ میں وحی الٰہی کے نزول تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاموش رہنے اور بذریعہ اجتہاد اللہ کا حکم بیان نہ کرنے کی تائید ان صحابیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جن سے ان کے شوہر نے ’’ظہار‘‘ کر لیا تھا اور
[1] بخاری: ۱۷۸۹، مسلم: ۱۱۸۰ [2] سورۃ البقرہ: ۱۹۶، فتح الباری ۱۰۰۶، ج ۱