کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 74
(۶) چھٹی مثال:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے لیے ’’دیے جانے‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آپ کے اجتہاد یا استنباط سے عبارت نہیں ، بلکہ وحی سے عبارت ہے، ایک صحیح حدیث کے الفاظ ہیں : ((ألاإنی أوتِیت القرآن ومثلہ معہ ألا یوشِک رجل شبعان علی أریکتہ یقول: علیکم بہذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرمرہ… وفی لفظ: یوشک أن یقعد الرجل علی أریکتہ، فَحُدِّث بحدیثی، فیقول: بینی وبینکم کتاب اللّٰہ، فما وجد نافیہ حلالًا استحللناہ وما وجدنا فیہ حراماً حرمناہ، وإن ما حرم رسول اللّٰہ کما حرم اللّٰہ۔)) ’’غور سے سن لو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کا ہم مثل غور سے سن لو! قریب ہے کہ ایک شکم سیر آدمی اپنی مسند پر بیٹھ کر یہ کہے کہ: تم لوگ اس قرآن کو لازم پکڑو، اور اس میں جو حلال پاؤ اس کو حلال مانو اور اس میں جو حرام پاؤ اس کو حرام سمجھو، دوسری روایت کے الفاظ ہیں : قریب ہے کہ ایک شخص اپنی مسند پر بیٹھے اور اس سے میری حدیث بیان کی جائے اس وقت وہ کہے: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے، لہٰذا ہم نے قرآن میں جو حلال پایا اس کو حلال قرار دیا اور جو حرام پایا اس کو حرام مانا، در حقیقت اللہ کے رسول نے جو چیزیں حرام قرار دی ہیں وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح ہیں ۔‘‘ [1] اس حدیث میں ’’اَوتیت‘‘ کی تعبیر اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کی طرح حدیث بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی۔ ’’أوتیت یا أعطیت‘‘ میں دیا گیا ہوں ، یا مجھے عطا کیا گیا ہے۔ کی یہ تعبیر دوسری حدیثوں میں بھی آئی ہے جس کا مطلب واضح ہے، یعنی اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔ بطور مثال ایک حدیث کے الفاظ ہیں : ’’أعطیت، أوتیت، جوامع الکلم‘‘ میں پر معنی کلام دیا گیا ہوں یا مجھے پر معنی کلام دیا گیا ہے۔ [2] ’’جوامع الکلم… جوامع جامعہ کی جمع ہے اور الکلم کلمہ کی، اور اس میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے۔ مطلب ہے ’’الکلمات الجامعہ‘‘ یعنی معانی سے پر اور جامع باتیں جن میں کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ادا کر دیے جائیں ۔ ’’جوامع الکلم‘‘ کی اعلیٰ ترین مثال قرآن پاک ہے۔ جس کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ حدیث سے متعلق جو بات ہر عالم حدیث کو معلوم ہوگی وہ یہ ہے کہ اس کے معانی تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ہیں ، لیکن تعبیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہے۔ جب کہ قرآن اپنے الفاظ اور معانی دونوں میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
[1] ابو داؤد، ۴۶۰۴، ترمذی، ۲۶۶۴، ابن ماجہ ۱۲۔ [2] بخاری: ۲۹۷۷، ۶۹۹۸، ۷۰۱۳، ۷۲۷۳، مسلم: ۵۲۳۔۷۰۵۔