کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 72
متصل حدیث کے الفاظ ہیں : ((… وإن الروح الأمین قدألقی فی رُوعی أنہ لن تموت نفس حتی تتوفی رزقہا فأجملوا فی الطلب…)) ’’در حقیقت روح الامین نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی بھی جان دار اپنی پوری روزی حاصل کیے بغیر نہیں مرے گا، لہٰذا خوش اسلوبی سے روزی طلب کرو۔‘‘ [1] اور مرسل حدیث کے الفاظ ہیں : ((کان جبریل ینزل علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بالسنۃ کما کان ینزل علیہ بالقرآن۔)) ’’جبریل اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت نازل کرتے تھے جس طرح آپ پر قرآن نازل کرتے تھے۔‘‘ [2] (۵) پانچویں مثال:… نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث کا نزول خواب کی صورت میں بھی ہوتا تھا اور انبیاء کے خواب وحی کا درجہ رکھتے تھے جس کی دلیل ابراہیم علیہ السلام کا وہ خواب ہے جس میں انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ وہ اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ذبح کر رہے ہیں اور جب انہوں نے ان سے اس کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی تو انہوں نے برجستہ جواب دیا: ﴿یَااَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ (الصافات: ۱۰۲) ’’اے میرے ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے۔‘‘ غور کیجئے! اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ نہیں کہا کہ میرے خیال یا میری رائے میں آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے، بلکہ بلا تردد اس کو اللہ کا حکم قرار دے دیا اور اس کی تنفیذ کی درخواست بھی کر دی، جبکہ ان کو یہ معلوم تھا کہ وہی مطلوب ہیں انہوں نے ایسا اس وجہ سے کہا کہ وہ ایک عظیم نبی کے ہونے والے نبی بیٹے تھے۔ خواب سنتے ہی اس کی تہہ تک پہنچ گئے، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات! میں نے اوپر جو کچھ عرض کیا ہے اس کی روشنی میں آپ جو خواب دیکھتے تھے وہ وحی الٰہی سے عبارت تھے، اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اس طرح کے خوابوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، اور عام طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے: ’’ہل رأی أحدُ منکم من رؤیأ‘‘ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو بیان کرتا اور آپ اس کی تعبیر بتاتے، اور اگر آپ نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو آپ بیان فرماتے، اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ نماز فجر کے بعد اور طلوع شمس سے پہلے خواب کی تعبیر بتانا مستحب ہے۔ [3]
[1] الاسماء والصفات حدیث: نمبر ۴۲۷، الرسالہ ص ۹۹ [2] اس حدیث کے راوی حسان بن عطیہ تابعی ہیں جن کا شمار شام کے ثقہ راویوں میں ہوتا ہے۔ (فتح الباری ص: ۳۳۲۹، ج ۳) [3] بخاری: ۷۰۴۷، فتح الباری، ص: ۳۱۴۶، ج ۳