کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 71
ایک اشکال اور اس کا جواب: صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیت (۲۸۴۔۲۸۶) کو نازل کرنے والا ایک دوسرا فرشتہ ہے جو اس سے قبل آسمان سے زمین پر نازل نہیں ہوا تھا، اس طرح یہ حدیث قرآنی بیان سے ٹکراتی ہے۔ اس اشکال کے جواب میں عرض ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کے کسی حکم یا بیان سے نہیں ٹکرا سکتی، یہ نا ممکن اور محال ہے، اگر کسی جگہ ایسا نظر آتا ہے تو یہ کوتاہ نظری ہے۔ دراصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ صرف یہ کہ زمین پر پہلی بار اترنے وانے فرشتہ نے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتوں کے فضائل بیان کیے تھے نہ کہ ان کو لے کر نازل ہوا تھا، کیونکہ یہ واقعہ مدینہ کا ہے، جبکہ یہ بات معروف اور معلوم ہے کہ نماز مکہ میں فرض ہوئی ہے اور فاتحہ سے خالی کسی نماز کا تصور نہیں ہے۔ اب میں صحیح مسلم کی حدیث کا متن نقل کر دیتا ہوں تاکہ صورت واقعہ مزید واضح ہو جائے۔ ((عن ابن عباس قال: بینا جبریل قاعد عندالنبی صلي اللّٰه عليه وسلم سمع نقیضاً من فوقہ، فرفع رأسہ، فقال: ہذا باب من السماء فتح الیوم، لم یُفتح قط إلاالیوم، فنزل منہ ملک فقال: ہذا ملک نزل إلی الأرض لم ینزل قط إلاالیوم، فسلم وقال: أبشر بنورین أوتِیتَہما لم یؤتہما بنی قبلک، فاتحۃ الکتاب وخواتیم سورۃ البقرۃ، لن تقرأ بحرف منہما إلا أعطِیتَہ۔)) ’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں : ایک مرتبہ جبکہ جبریل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے آسمان سے شدید چر چراہٹ کی آواز سنی تو سر اوپر اٹھایا اور کہا: یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا تھا، اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا، جبریل نے کہا: یہ فرشتہ آج زمین پر اترا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا۔ اس نے سلام کیا اور عرض کیا: آپ کو ان دو روشنیوں کی خوش خبری جو صرف آپ کو دی گئی ہیں آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں ، سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ، آپ ان کا جو حصہ بھی پڑھیں گے اس میں مذکور چیز آپ کو عطا کی جائے گی۔‘‘ [1] میں عرض کر رہا تھا کہ قرآن ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت بیداری میں نازل ہوتا تھا اور اس کو نازل کرنے والے صرف جبریل علیہ السلام تھے، رہا یہ سوال کہ کیا حدیث نازل کرنے والے بھی وہی تھے یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا فرشتہ؟ اس سوال کے جواب میں لوگوں کا اختلاف ہے، لیکن ایک صحیح متصل حدیث اور ایک صحیح مرسل حدیث سے بصراحت یہ ثابت ہے کہ حدیث کے معانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل کرنے والے بھی جبریل علیہ السلام ہی تھے۔
[1] مسلم، نمبر ۸۰۶