کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 70
’’در حقیقت مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔‘‘ [1] (۴) چوتھی مثال:… قرآن پاک کے نزول سے متعلق تو یہ امر مسلم ہے کہ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت بیداری میں نازل ہوتا تھا، اور اس کو آپ کے قلب مبارک پر نازل کرنے والے صرف سیّد الملائکہ جبریل علیہ السلام تھے جن کے ساتھ کوئی اور فرشتہ شریک نہیں تھا قرآن پاک میں اس کی صراحت ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کی تعریف کے طور پر اس کا ذکر کیا ہے، سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۹۷) ’’کہہ دو، جو کوئی جبریل کا دشمن ہو، تو در حقیقت اس نے اللہ کے حکم سے اسے تیرے قلب پر نازل کیا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں بلاغت کی یہ باریکی ہے کہ اس میں جبریل علیہ السلام کی ایک امتیازی اور منفرد فضیلت کو ان سے یہودیوں کی عداوت اور دشمنی کا سبب بتایا گیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ: آیت کا پہلا جملہ: ﴿مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ﴾ شرط ہے اور دوسرا جملہ: ﴿فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ﴾ جزا، اور شرط اور جواب شرط میں معنوی ربط یہ ہے کہ اس سے جبریل علیہ السلام سے عداوت رکھنے والے یہودیوں کی مذمت کی تاکید مقصود ہے، گویا دوسرے لفظوں میں یوں ہے: کہ جبریل علیہ السلام سے عداوت اور دشمنی رکھنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اس کے حکم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل کیا ہے۔ اس کے ساتھ آیت میں جبریل علیہ السلام کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ وہی قران کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرتے تھے اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس میں فرشتوں میں سے کوئی بھی ان کا شریک وسہیم نہیں تھا۔ اس طرح قرآن پاک کے معجزانہ اسلوب بیان سے تعریف اور مذمت کے الفاظ استعمال کیے بغیر جہاں یہ معلوم ہو گیا کہ جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بے حد محبوب اور مقرب بندے ہیں ، وہیں یہودیوں کی یہ مذموم اور بری صفت اور خصلت بھی معلوم ہو گئی کہ وہ ہر صاحب فضیلت وعظمت سے نفرت اور عداوت رکھتے ہیں ۔ سورۂ بقرہ کی اس آیت میں جبریل علیہ السلام کے جس امتیازی مقام ومرتبے کو بیان کیا گیا ہے، وہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۂ شعراء میں بیان کیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۴) ’’در حقیقت یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے امانت دار روح نے تیرے دل پر نازل کیا ہے، تاکہ توڈرانے والوں میں شامل ہو جائے۔‘‘
[1] بخاری: ۸۶، ۹۲۲، مسلم: ۹۰۵۔