کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 67
محدث وفقیہہ ہونے کے ساتھ حد درجہ حق پسند تھے۔
اسرار شریعت کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ اس کا کوئی ضابطہ نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق سراسر ذوق، سے ہے جو صوفیا کی خاص چیز ہے، اور ذوق وپسند کا کوئی ضابطہ ہوتا ہی نہیں اسی وجہ سے صوفیا کے افکار وخیالات میں کتاب وسنت کی تعلیمات سے دوری اور بعد میں اتفاق واتحاد کے باوجود بڑے تضادات ہیں ۔
سورۂ نساء کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ’’حکمت‘‘ سے حدیث مراد ہونے کی سب سے واضح دلیل آیت کا مضمون ہے، پوری آیت اور اس کا ترجمہ پڑھنے سے میری بات سمجھنے میں مدد ملے گی، ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنُفُسَہُمْ وَ مَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْئٍ وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا﴾ (النساء: ۱۱۳)
’’اور اگر تمہارے اوپر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو یقینا ان میں سے ایک گروہ تمہیں حق سے پھیر دینے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا، حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو گمراہی میں ڈال رہے ہیں اور وہ تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دی ہے جو تم نہیں جانتے تھے، اور تم پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کا تعلق چوری کے ایک مقدمہ سے ہے جس میں منافقین نے اصل چور ابن اُبیرق کو بری کرانے اور اس الزام کو ایک بے قصور یہودی کے سر تھوپنے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غلط بیانی سے کام لیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل آپ کو حقیقت حال سے بذریعہ وحی آگاہ فرما دیا تھا۔
مبنی برحق فیصلہ کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باز رکھنے کے لیے ’’اضلال‘‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے، جو روایتی گمراہی کے معنی میں نہیں ہے۔
پوری آیت سامنے آ جانے کے بعد کتاب وحکمت کے معنی واضح ہو جاتے ہیں اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سلسلہ بیان میں حکمت سے مراد حدیث کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ یہی دونوں ماخذ شریعت ہیں ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کو فہم قرآن میں منفرد مقام حاصل تھا اور قرآنی مطالب پر ان کی نظر بڑی گہری تھی، اپنی کتاب الرسالہ اور احکام القرآن میں انہوں نے آیت میں مذکور ’’الحکمہ‘‘ سے سنت ہی مراد لی ہے اور فرمایا ہے کہ قرآن کا علم رکھنے والے جن اہل علم پر ان کو اعتماد ہے ان کا بھی یہی قول ہے (الرسالہ ص ۸۷، احکام القرآن ص ۲۸۔۲۹ ج ۱) میں ان کا پورا قول نقل کر چکا ہوں ۔ لیکن یہاں میں سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۳۴ سے ان کے استدلال کا ذکر کر دینا چاہتا ہوں جس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ قرآن پاک میں جہاں بھی حکمت کا ذکر کتاب پر عطف کی صورت میں آیا ہے وہاں