کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 66
حدیث وحی ہے: (۱)… حدیث کے وحی ہونے کی بنیادی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ﴾ (النساء: ۱۱۳) ’’اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دی ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘ میں سابقہ صفحات میں حکمت سے حدیث مراد لیے جانے کے مسئلہ کو نہایت وضاحت اور تفصیل سے بیان کر چکا ہوں جس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا، یہاں یہ عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ اس آیت پاک میں بھی حکمت سے مراد حدیث ہی ہے، کیونکہ اس کتاب یعنی قرآن کو ماخذ رشد وہدایت قرار دیا گیا ہے لہٰذا کتاب پر اس چیز کا عطف آیت کے سیاق وسباق کا تقاضا ہے جو اس کی طرح ماخذ رشد وہدایت ہو۔ میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۹ میں مذکور ’’الحکمۃ‘‘ کے مفہوم کے بارے میں مولانا اصلاحی صاحب کی رائے نقل کر چکا ہوں ، جنہوں نے حکمت سے حدیث مرا دلینے والوں کے قول کو بہت وزنی قرار دیا ہے، بلاشبہ ان کی یہ بات بڑی وقیع ہے، کیونکہ سورۂ بقرہ اور اس زیر بحث آیت، نیز دوسری آیتوں میں کتاب کے ساتھ اس کا ذکر جس سلسلہ بیان میں آیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ان تمام آیتوں میں حکمت سے مراد حدیث ہی لی جائے، تعجب ہے کہ اصلاحی صاحب نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کتاب وحکمت کہنے پر اکتفا کیا ہے اور یہ نہیں لکھا ہے کہ حکمت سے کیا مراد؟ مفسرین میں بعض لوگوں نے حکمت کے معنی ’’اسرار شریعت کی معرفت‘‘ بیان کیے ہیں اور قرطبی نے حکمت کی تفسیر ’’وحی کے ذریعہ فیصلہ کرنے‘‘ سے کی ہے، ان میں سے پہلا مفہوم: اسرار شریعت کی معرفت، اگرچہ بظاہر بڑا جاذب نظر لگتا ہے، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور خود قرآن پاک میں کہیں شریعت کے اسرار نہیں بیان کیے گئے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ قرین صواب ہے کہ شریعت کے اسرار بیان کرنے کی جانب سب سے پہلے صوفیا نے توجہ دی ہے اور یہ قرآن کے ’’باطن‘‘ کا ہم معنی ہے، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کو یا شریعت کو ظاہر و باطن میں تقسیم کرنے والے ’’شیعہ‘‘ ہیں ، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ علم ظاہرو باطن کا نعرہ لگانے والے صوفیا ہیں ، چنانچہ برصغیر کے صوفیا کے پیر مغاں اور قطب الارشاد حاجی امداد اللہ کی تحریروں میں غیر صوفیا کے لیے اہل ظاہر اور صوفیا کے لیے اہل باطن کی تعبیر کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔ اسرار شریعت اور باطن شریعت یا باطن قرآن کے درمیان ربط وتعلق سے میرے اس دعویٰ کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ ابو حامد غزالی نے اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ میں شریعت کے اسرار کے بیان کی جانب خاص توجہ دی ہے اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ موصوف بہت بڑے صوفی اور بہت بڑے متکلم تھے، اسی طرح شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا بنیادی موضوع ’’اسرار شریعت‘‘ کا بیان ہی ہے، ان کا شمار بھی صوفیا میں ہوتا ہے، البتہ شاہ ولی اللہ وسیع النظر