کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 65
آپ کی کوئی رائے غلطی پر برقرار رہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کا اجتہاد منصوص سے استنباط کے معنی میں ہو جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے، بلکہ آپ کا بیشتر اجتہاد اس نوعیت کا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقاصد شریعت، شریعت سازی، معاملات میں نرمی پید اکرنے اور احکام کا قانون سکھا دیا تھا، اس طرح بذریعہ وحی حاصل کرنے والے مقاصد کو آپ نے قانون کے ذریعہ بیان کر دیا۔‘‘ [1]
شاہ ولی اللہ کی مذکورہ بالا عبارت سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ علوم نبوت کے بعض حصے اگرچہ اجتہاد کی طرف منسوب ہیں ، لیکن اجتہاد دورائے میں غلطی سے محفوظ ہونے کی وجہ سے ان اجتہادی علوم کو بھی وحی الٰہی کا درجہ حاصل ہے۔
رہے علوم معاد یا غیبیات اور اقتدار الٰہی پر دلالت کرنے والے تخلیقی اور ایجادی علوم تو یہ سب وحی سے ماخوذ تھے، شاہ ولی اللہ نے شرعی احکام، اور عبادات اور باہمی معاملات کو ایک ہی ساتھ ذکر کے یہ جو فرمایا ہے کہ: ’’ان میں سے بعض کو اجتہاد کے ذریعہ منضبط کیا گیا ہے اور بعض وحی پر مبنی ہیں ‘‘ تو اس سے حقیقت واقعہ کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ اگر انہوں نے ایمانیات، ملکوت اللہ کے مظاہر اور عبادات، معاملات، اخلاق اور حدود وغیرہ کے احکام کو وحی الٰہی پر مبنی قرار دیا ہوتا اور ان کو بعض باہمی معاملات اور اخلاقی مسائل سے الگ کر کے بیان کیا ہوتا جن میں سے بعض وحی پر مبنی ہیں اور بعض اجتہاد پر تو ان کی یہ بات کتاب وسنت کے نصوص سے زیادہ ہم آہنگ ہوتی، البتہ ان کے اس بیان سے ندوی صاحب کے اس دعویٰ کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ: احکام واخلاق کے متعلق صحیح احادیث میں جو کچھ ہے وہ تمام تر قرآن سے ماخوذ ومستنبط ہے۔‘‘
مزید یہ کہ شاہ صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کیے جانے والے اجتہادی امور کے کتاب اللہ کے نصوص سے مستنبط ہونے کے نظریہ کی قطعی تردید کر دی ہے۔
دراصل ندوی صاحب کا یہ دعویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت کی نفی کر دیتا ہے اور یہ دعویٰ ان کے ذہن کی اُپج نہیں ہے، بلکہ ان منکرین حدیث کے اس دعویٰ کی صدائے باز گشت ہے کہ قرآن سے باہر کی کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہے، اصلاحی صاحب تو کسی صحیح ترین حدیث کے نا قابل قبول ہونے کی ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس میں جو مسئلہ بیان کیا گیاہے ’’اس کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے‘‘ جبکہ قرآن پاک کی ایک سے زیادہ آیات صریح لفظوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مستقل شارع‘‘ قرار دیتی ہیں اور اس صفت میں بھی آپ کی مطلق اور غیر مشروط اطاعت کا حکم دیتی ہیں ۔ اس مسئلہ کو میں ان شاء اللہ تعالیٰ ’’حدیث اور فقہاء‘‘ کی فصل کے تحت تفصیل سے بیان کروں گا۔
اب میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ حدیث وحی الٰہی ہے، اس بحث میں بھی میرے سارے استدلالا ت قرآنی آیات اور صحیح احادیث پر ہوں گے، لوگوں کے اقوال پر نہیں ۔
[1] حجۃ اللّٰہ البالغہ ص ۰۳۷۱ ۳۷۲، ج ۱