کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 64
لیتے ہیں ، مگر اس کے ساتھ ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ حدیث وحی ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد اور قران سے آپ کا استنباط، اس سے امر واقعہ میں کیا فرق واقع ہوا، کیا قرآن کے مطابق اپ کی مطلق اور غیر مشروط اطاعت فرض نہیں ہے۔ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر حدیث کے وحی ہونے یا اجتہاد ہونے کی بحث عبث اور تضیع اوقات ہے، اور اگر جوا ب نفی میں ہے تو یہ حدیث سے پہلے قرآن کا انکار اور قرآن کو نازل کرنے والے کو چیلنج کرنا ہے، انجام سوچ لو۔
سلیمان ندوی کی بڑ:
حدیث اور سنت میں فرق، اور عقائد کے باب میں حدیث واحد کے نا قابل استدلال ہونے کی بحث کے ضمن میں مولانا سیّد سلیمان ندوی کا ذکر خیر بار بار آ چکا ہے ان کا ایک دعویٰ اور بڑ یہ ہے:
’’بہت سے علمائے محققین کی طرح میرا بھی یہ اعتقاد ہے کہ احکام واخلاق کے متعلق صحیح احادیث میں جو کچھ ہے وہ تمام تر قرآن سے ماخوذ ومستنبط ہے۔‘‘[1]
بلاشبہ موصوف کا شمار علمائے محققین میں ہوتا ہے، اگرچہ آخری عمر میں وہ اس جماعت میں شامل ہو گئے تھے جس کے عقائد، اعمال اور ریاضتیں اسلام اور غیر اسلام کا مجموعہ ہیں ۔ اپنے نام اور شہرت کی رعایت کرتے ہوئے ان کو اتنے بڑے دعوے کے دلائل قران وحدیث سے دینے چاہیے تھے۔ صرف محققین کی جماعت میں شامل ہو جانے اور ان کا عقیدہ اپنا لینے سے کوئی دعویٰ دلیل تو نہیں ہو جاتا۔
آگے انہوں نے اس اجتہاد واستنباط کا نام تبیین (کھولنا) اور اِراء ۃ (دکھانا) دیا ہے۔ اور تاکید الٰہی اور شرح ربانی کی وجہ سے بہ شرط ثبوت اس اجتہاد واستنباط کو یقینی اور واجب التعمیل قرار دیا ہے اور اس کے متواتر ہونے کی شرط نہیں لگائی ہے۔
احکام واخلاق سے ندوی صاحب نے کیا مراد لیا ہے اس کا علم ہمیں نہیں ، البتہ ان کے مبنی بر ’’وحی‘‘ ہونے کی یہ فرماکر کلی نفی کر دی ہے کہ ’’وہ تمام تر قرآن سے ماخوذ ومستنبط ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کے مسئلہ میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی اظہار خیال کیا ہے اور ان کا بیان زیادہ دقیق اور اقرب الی الصواب ہے، سنت یا حدیث کے وحی الٰہی ہونے یا محض اجتہاد واستنباط ہونے کے مسئلہ کی وضاحت سے قبل میں شاہ ولی اللہ کی عبارت نقل کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں ، فرماتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض علوم وحی پر مبنی ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو علوم معاد اور اقتدار الٰہی کے عجائبات سے تعلق رکھتے ہیں وہ سب وحی پر مبنی ہیں ، انہیں میں سے شرائع اور عبادات اور باہمی معاملات کو مذکورہ طریقوں سے منضبط کرنا بھی ہے، جن میں سے کچھ تو وحی پر قائم ہیں اور کچھ اجتہاد کا نتیجہ ہیں ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اجہتاد وحی کے درجہ میں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات سے محفوظ کر دیا تھا کہ
[1] مقالات سلیمان، ص ۱۴۱