کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 63
حدیث واحد کی پہلی مثال میں نے جو دی ہے وہ صحابی کے بعد تین طبقات میں یعنی ۱۴۳ھ تک صرف ایک ایک راوی سے مروی ہونے کے باوجود یقینی ہے اور چند عقل پرستوں کے سوا تمام علمائے اسلام کے نزدیک ’’ظنیت‘‘ سے پاک ہے۔
اور دوسری حدیث اگرچہ سات صحابیوں سے مروی ہے، مگر ان میں سے کسی نے بھی اس کا مکمل متن نہیں بیان کیا ہے، بلکہ کسی نے اس کا کوئی فقرہ بیان کیا ہے اور کسی نے کوئی اور، اور اگر یہ ہر صحابی سے مکمل طور پر بھی بیان ہوتی تب بھی حدیث واحد ہی ہوتی، اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
۱۔ اگر کوئی حدیث صرف ایک ہی راوی سے مروی ہو اور وہ راوی عدالت اور حفظ سے موصوف ہو اور اسی درجے کی کوئی اور روایت اس کے خلاف نہ ہو تو اس سے علم الیقین حاصل ہوتا ہے ’’ظن‘‘ نہیں ، ویسے ایک ہی درجے کی دو صحیح حدیثیں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتیں جس طرح قرآن پاک کی دو یا دو سے زیادہ آیتیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتیں ۔
۲۔ اگر کوئی حدیث ایک سے زیادہ راویوں سے مروی ہو تو اس سے حاصل ہونے والے یقین کے درجہ اور کیفیت میں تبدیل ہو گی نفس یقین میں نہیں اس درجہ اور کیفیت کو یوں سمجھئے کہ ہمارا ایمان خلفائے راشدین کے ایمان کی طرح نہیں ہے، بلکہ خود تمام صحابہ کرام کا ایمان مساوی نہیں تھا، لیکن ہر مومن صادق کا ایمان ایمان ہی ہے اور معتبر ہے، اور قرآن کے مطابق ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی، لیکن کفر میں تبدیل نہیں ہوتا۔
اسی طرح ایک ہی راوی سے مروی حدیث سے جو یقین حاصل ہوتا ہے وہ یقین اس یقین سے درجہ اور کیفیت میں کم ہوتا ہے جو کئی راویوں سے مروی حدیث سے حاصل ہوتا ہے، البتہ دونوں قسم کی حدیثوں سے حاصل ہونے والا یقین، یقین ہی رہتا ہے ظن، شک اور وہم وخیال نہیں بن جاتا، اس پہلو کی مزید وضاحت ’’حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے کے دلائل‘‘ کی فصل میں آ رہی ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع کی حدیث سے ایک اور اہم حقیقت یہ عیاں ہوئی ہے کہ دین وشریعت سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہوا کوئی ایک لفظ اور آپ کی سیرت پاک کا کوئی ایک واقعہ بھی ضائع نہیں ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہ دین ہے اور دین مکمل طور پر محفوظ ہے، لیکن اس کا ماخذ ومرجع احادیث کے مستند ذخائر ہیں ، رازی، جوینی، غزالی، کشمیری، گیلانی، اصلاحی، غامدی اور ندوی وغیرہ کی کتابیں اور تحریریں نہیں ۔
حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد ہے؟:
منکرین حدیث اور حدیث کو مشروط حجت ماننے والے قدیم زمانے سے اب تک اس کی شرعی حیثیت کو مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں اس مذموم غرض کو بروئے کار لانے کے لیے وہ جو حربے استعمال کر رہے ہیں ان میں سے ایک ان کا یہ دعویٰ ہے کہ حدیث وحی الٰہی نہیں ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد ہے، ہم تھوڑی دیر کے لیے ان کا یہ دعویٰ مان