کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 62
۳۰۷۲، مسند طیالسی ۹۹۱ وغیرہ۔ حجۃ الوداع جیسے اہم حج اور خطبہ عرفہ جیسے تاریخی خطبہ کی روایت ’’خبر واحد‘‘ میں شمار ہوتی ہے جو معتزلہ، متکلمین، منکرین حدیث اور عصر جدید کے محققین کے نزدیک ظنی ہے۔ جس سے قرآن پاک میں اضافہ اور اصول اسلام کے قبیل کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا اس مسئلہ پر میری تفصیلی گفتگو تو ان شاء اللہ بعد میں ہو گی اس وقت میں جو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ میں سے صرف سات صحابیوں کا حجۃ الوادع اور خطبہ عرفات کی تفصیلات روایت کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کا علم صرف انہی کو تھا؟ یا ان کا علم تو تقریبا سب کو تھا اور سب اس عمل حج میں شریک بھی تھے اور سب نے خطبہ عرفہ سنا بھی تھا، البتہ ان کی روایت صرف چند نے کی اس طرح یہ واقعات محفوظ بھی ہو گئے اور صحابہ سے تابعین کو منتقل بھی ہو گئے۔ نیت اور حجۃ الوداع کی احادیث کے ’’آحاد‘‘ ہونے سے اس دعویٰ کی جڑیں کٹ جاتی ہے کہ ’’عموم البلوی‘‘ کی احادیث کے راویوں کی تعداد متواتر ہونی چاہیے۔ کیا نیت اور حجۃ الوداع سے بڑا اور اہم واقعہ کوئی اور ہو سکتا ہے جس پر عموم البلوی کا اطلاق کیا جائے؟ دراصل ’’خبر واحد‘‘ اور ’’خبر متواتر‘‘ کا ہوّا کھڑا کر کے اور خبر واحد کی ظنیت کا نعرہ لگا کر منکرین نے احادیث کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی جو مہم چلا رکھی ہے وہ ایک شیطانی چال ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ روایت حدیث کے مسئلہ میں صحابہ کا طرز عمل ایک دوسرے سے مختلف تھا، اکثریت ایسے صحابہ کی تھی جو صرف ضرورت پڑنے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل کے بارے میں سوال کیے جانے کے موقع پر حدیث بیان کرتے تھے، جبکہ ان کے بالمقابل ایسے صحابہ تھے جو روایت حدیث کو تبلیغ دین کے عمومی حکم میں شامل مان کر اس کی روایت کو ضروری خیال کرتے تھے اس طرح حدیث کی نشرواشاعت مطلوبہ شکل میں ہو رہی تھی اس عمل میں صحابہ کرام کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے کوئی گروپ بندی بھی نہیں تھی، لیکن حدیث کے شرعی ماخذ ہونے کی وجہ سے اس پر دونوں قسم کے صحابہ کا عمل تھا۔ نتیجہ: میں اوپر یہ عرض کر چکا ہوں کہ حدیث ظنی نہیں ، یقینی ہے اور اس سے یقین کی ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا راوی ایک ہے یا ایک سے زیادہ، ایسا اس لیے ہے کہ اس کی بنا یقینی ذریعہ علم، سماع پر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی روایت کرنے والے کو تو عین الیقین اور حق الیقین حاصل ہوتا تھا ، رہے اس صحابی سے اسے سننے والے تابعی، تبع تابعی اور تبع تبع تابعی تو ان کو اس کی صحت کا علم الیقین حاصل ہوتا تھا، کیونکہ صحابہ کے بعد کے یہ تینوں راوی عدالت اور حفظ سے کماحقہ موصوف ہوتے تھے اور عدل اور حافظ راوی کی خبر ظنی نہیں ‘ یقینی ہوتی ہے۔