کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 604
کے لیے جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا، اس لیے آپ نے ’’فضائل اعمال‘‘ کے دین سے ناواقف اور نابلد قارئین کو دھوکے میں رکھنے کے لیے اپنے ان دعاوی کی بنیاد ایک ایسے حنفی صوفی کے ’’بے دلیل‘‘ قول پر رکھی جس کی وفات ۱۰۱۴ھ میں ہوئی ہے۔ ۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور آپ سے محبت، آپ کی بے چون و چرا پیروی اور آپ کے احکام کی برضا و رغبت اطاعت سے عبارت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت اگر اتنی ہی اہم ہوتی جتنی آپ نے دکھانے کی سعی لا حاصل کی ہے تو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کو اجتماع گاہ، جشن گاہ بنانے اور اس کے پاس میلہ لگانے سے منع فرمایا ہے اور یہ فرما کر یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجی ہے کہ: ((قاتل اللّٰہ الیہود و النصاری اتخذوا قبور انبیائہم مساجد)) ’’اللہ یہود و نصاری کو غارت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا ہے۔‘‘[1] اسی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنے کے بعد اس دنیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہوئی ہے کہ: اے اللہ تو میری قبر کو بت بنائے جانے سے محفوظ رکھ۔[2] اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور آپ کی قبر کو بت بنائے جانے سے محفوظ رکھا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت اہم ترین نیکیوں اور افضل ترین عبادات میں سے ایک ہوتی تو ایک ہی بار سہی آپ نے اسے بیان فرما دیا ہوتا، کیونکہ ایسا کرنا آپ کے فرائض منصبی میں داخل تھا۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماخذ شریعت مانتے ہوئے جو اہلِ حق اور توحید کے داعی یہ کہتے ہیں کہ قبر مبارک کی زیارت عام قبروں کی زیارت کے حکم میں داخل ہونے کی وجہ سے صرف جائز ہے اور جس طرح عام قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کی زیارت کے لیے بھی سفر جائز نہیں ایسے حق پرستوں کو ’’وہابی‘‘ کا لقب دے کر بدنام کرنا کیا مشرکین کے اس قول کے مانند نہیں ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کہتے تھے کہ: ﴿اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌo﴾ (صٓ: ۵) ’’کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا درحقیقت یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘
[1] بخاری، ۴۳۷۔ مسلم: ۵۳۰ [2] مسند: ۷۳۵۸