کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 603
و سنت سے بصراحت ثابت آپ کی وفات کے انکار اور اس باطل عقیدہ سے کہ قبر مبارک میں آپ کو دنیوی زندگی حاصل ہے حقیقت نہیں بدل سکتی اور قبر مبارک کی زیارت پر ’’آپ کی زیارت‘‘ کا اطلاق درست نہیں ہو سکتا۔ ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں بحالت ایمان آپ کی زیارت کرنے والا یا آپ سے ملاقات کرنے والا ’’صحابی‘‘ کہلاتا ہے، جو انبیاء علیہم السلام کے بعد اس زمین پر بسنے والے سب سے مقدس گروہ: ’’صحابہ‘‘ کا ایک فرد تھا اور ۱۱۰ھ میں وفات پانے والے آخری صحابی ابو طفیل عام بن واثلہ اس مقدس جماعت کی آخری کڑی تھے اور صحابہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لا تسبوا أصحابی، فلو أن أحدکم أنفق مثل اُحُد ذہبا ما بلغ مُدَّ أحدہم و لا نصیفہ)) ’’تم میرے اصحاب کو برا مت کہنا، کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو اس کا ثواب صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مُد یا آدھے مُد کے برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘[1] جبکہ قبر مبارک کی زیارت کرنے والا، اگر صحیح العقیدہ ہے تو عام مسلمان ہے اور اس زیارت سے اس کے درجات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، اور یہ بھی اس صورت میں جب وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نیت سے باہر سے وہاں گیا ہو اور مسجد نبوی میں اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور صاحبین کی قبروں کی زیارت کر لے اور درود و سلام پڑھنے پر اکتفا کرے اور اس زیارت کی کسی فضیلت کا اعتقاد نہ رکھے، تو قبروں کی زیارت کی جو اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اس کی رو سے وہ ایک جائز فعل کرنے والا شمار ہو گا، لیکن اگر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت آپ کی تعظیم و توقیر، قبر مبارک میں آپ کی حیات دنیوی کے اعتقاد اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت سے موصوف ماننے کے عقیدہ سے کیا ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس نے ایک غیر مشروع فعل کا ارتکاب کیا ہے جس کی شاہد وہ دسیوں صحیح احادیث ہیں ، جن میں بعض کا ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ ۳۔ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نیت سے، جس کی فضیلت منصوص ہے مدینہ سفر کرنے والے کے لیے قبر مبارک کی زیارت کے صرف جواز کے قائل تمام صحابہ، تمام تابعین، تمام ائمہ اربعہ اور تمام محدثین ہیں ، ان کا ذکر ’’چند حضرات‘‘ سے کرنا مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے اور ’’زیارت‘‘ کے اہم ترین نیکیوں اور افضل ترین عبادات‘‘ میں ہونے پر تمام مسلمانوں کے اتفاق کا دعویٰ ’’مکابرہ‘‘ ہے، کیونکہ اگر آپ اپنے ان دعاوی میں سچے ہوتے اور واقعتا تمام مسلمانوں کے نزدیک قبر مبارک کی زیارت ’’اہم ترین نیکیوں اور افضل ترین عبادات میں ہوتی‘‘ تو آپ متقدمین علمائے احناف، محدثین اور فقہاء میں سے کسی کے قول کو اپنے ان دعاوی پر دلیل بناتے، مگر چونکہ ایسا کرنا آپ
[1] بخاری: ۳۶۷۳۔ مسلم: ۲۵۴۱