کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 602
مقام عبرت: ۱۔ مقامِ عبرت ہے کہ ایک فخر المحدثین اور زبدۃ المحدثین سفر مدینہ کے موقع پر مسجد نبوی کی زیارت کو قبر مبارک کی زیارت کے تابع قرار دے رہا ہے، جبکہ مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت منصوص ہے اور وہ ان تین مسجدوں میں سے ایک بھی ہے جن میں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کو جائز قرار دیا گیا ہے، جبکہ مخصوص طور پر قبر مبارک کی زیارت کے جواز پر دلالت کرنے والی کوئی ایک حدیث بھی نہیں ہے، حسن ہی درجے کی سہی۔ ۲۔ فخر المحدثین اپنے دعویٰ کی دلیل ایک ایسی روایت کو بتا رہا ہے جو اپنی سند اور متن کے منکر ہونے کے علاوہ ’’قبر کی زیارت‘‘ کے ذکر سے خاموش ہے اور اس کی زبان اور اسلوب بیان بصراحت اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اس میں ’’زیارت‘‘ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات ہے۔ ۳۔ ایک دیانت دار محدث کی دیانت داری ملاحظہ ہو کہ اس کو اپنے دعویٰ کے حق میں خود اپنے مسلک کے قدیم فقہاء میں سے کسی کا قول نہیں ملا اور اس نے دور تعصب کے ایک فقیہ محمد بن عبدالواحد بن ہمام متوفی ۸۶۱ھ کے قول اور ایک غالی صوفی ملا جامی کے عمل سے استدلال کرنے سے بھی خجالت نہیں محسوس کی۔ ۴۔ ایک دوسرے صوفی بزرگ جن کے نام سے پہلے امام، محدث اور قطب الارشاد لکھا جاتا ہے، یعنی مولانا محمد زکریا صاحب اپنی کتاب فضائلِ اعمال کے فضائل حج کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ’’ملا علی قاری جو مشہور عالم فقیہ محدث حنفی ہیں ، انہوں نے لکھا ہے: چند حضرات کے علاوہ جن کا خلاف کچھ معتبر نہیں بالاتفاق تمام مسلمانوں کے نزدیک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اہم ترین نیکیوں میں ہے اور افضل ترین عبادات میں ہے اور اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے کامیاب ذریعہ اور پُرامید وسیلہ ہے اور اس کا درجہ واجبات کے قریب ہے، بلکہ بعض علماء نے واجب کہا ہے اس شخص کے لیے جس میں وہاں حاضری کی وسعت ہو۔‘‘[1] افسوس ہے کہ اتنے بڑے بڑے القاب کے حامل مولانا زکریا نے اس مختصر سی عبارت میں جتنے دعوے کیے ہیں سب جھوٹ ہیں : ۱۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’قبر مبارک کی زیارت‘‘ کی جگہ حضور اقدس کی زیارت کی جو تعبیر اختیار کی ہے اور مراد قبر کی زیارت لی ہے تو یہ غلط ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت، آپ کی قبر مبارک کی زیارت ہرگز نہیں ، آپ کی زیارت سے مراد آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنا ہے، جو آپ کے وفات پا جانے کی وجہ سے ناممکن اور محال ہے، لہٰذا آپ کی قبر کی زیارت، آپ کی نہیں ، آپ کی قبر کی زیارت ہے۔ کتاب
[1] ص: ۹۲