کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 601
سوال:… ۲۔ أی الأمرین أحب إلیکم و أفضل لدی أکابرکم للزائر ہل ینوی وقت الارتحال للزیارۃ زیارتہ علیہ السلام أو ینوی المسجد أیضا و قد قال الوہابیۃ أن المسافر إلی المدینۃ لا ینوی إلا المسجد النبوی۔ ’’آپ کے نزدیک اور آپ کے اکابر کے نزدیک زیارت کرنے والے کی ان دو باتوں میں سے کون سی بات زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے: آیا یہ کہ وہ وقتِ سفر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا قصد کرے یا مسجد نبوی کی بھی، جبکہ وہابیوں کا عقیدہ ہے کہ مدینہ کا سفر کرنے والا صرف مسجد نبوی کا قصد کرے۔‘‘ جواب:… عندنا و عند مشائخنا زیارۃ قبر سید المرسلین ’’روحی فداہ‘‘ من أعظم القربات و أہم المثوبات و الحج لنیل الدرجات، بل قریبۃ من الواجبات و إن کان حصولہ بشد الرحال و بذل المہج و الأموال دینوی وقت الارتحال زیارتہ علیہ الف الف تحیۃ و سلام و ینوی معہا زیارۃ مسجدہ صلي اللّٰه عليه وسلم و غیرہ من البقاع و المشاہد الشریفۃ، بل الأولی ما قال العلامۃ الہمام ابن الہمام أن یجرد النیۃ لزیارۃ قبرہ علیہ السلام … و یوافق ذلک قولہ صلي اللّٰه عليه وسلم : من جاء نی زائرا لا تُعمِلُہ حاجۃ إلا زیارتی کان حقا علیَّ أن أکون لہ شفیعا یوم القیامۃ، و کذا نُقِل عن العارف السامی الملاجامی أنہ أفرد الزیارۃ عن الحج و ہو أقرب إلی مذہب المحبین۔ ’’ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک رسولوں کے سردار کی قبر کی زیارت، میری جان آپ پر فدا اعلیٰ درجہ کی قربت، اہم ترین ثواب اور حصول درجات کا سبب ہے، بلکہ واجب کے قریب ہے، اگرچہ اس کا حصول کجاوا کس کر اور جان و مال قربان کر کے ممکن ہو اور بوقت سفر زائر آپ کی زیارت کا قصد و ارادہ کرے، آپ پر لاکھوں تحیہ و سلام اور اسی کے ساتھ آپ کی مسجد اور دوسرے مقامات و آثار متبرکہ کی زیارت کی بھی نیت کر لے، بلکہ اولیٰ یہ ہے جیسا کہ ہمام ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ اپنی نیت نبی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے خالص کر لے … یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ہے: ’’جو میری زیارت کے لیے میرے پاس آئے، میری زیارت کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو، تو میرے اوپر یہ واجب ہے کہ بروز قیامت میں اس کے لیے شفاعت کرنے والا بنوں ۔‘‘ اور ایسا ہی بلند مرتبہ عارف ملا جامی سے منقول ہے کہ انہوں نے زیارت کو حج سے علیحدہ کر کے سفر کیا اور یہی طرز عمل محبین کے مسلک کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ [1]
[1] ص: ۳۵-۳۶