کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 600
جیسا کہ اکابر صوفیا خوشی اور غم کے موقعوں پر اپنے مشائخ کی قبروں پر حاضر ہوتے ہیں ۔ صوفیا کے دلائل: صحیح احادیث کی روشنی میں آپ کو عام قبروں کی زیارت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’قبرِ مبارک‘‘ کی زیارت کا حکم معلوم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ قبروں کی زیارت کی اجازت صرف موت اور آخرت کی یاد تازہ کرنے کے لیے دی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں ’’اصحاب قبور‘‘ کی تعظیم اس زیارت کی مشروعیت کا سبب نہیں ہے اس طرح صالحین کی قبروں کی زیارت کی تخصیص صوفیانہ ذہنیت کی پیداوار ہے جو نہ اسلامی ہے اور نہ اسلام کے توحیدی مزاج سے ہم آہنگ ہی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ کسی بھی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص طور پر اپنی قبر کی زیارت کی اجازت نہیں دی ہے، لہٰذا یہ زیارت، زیارتِ قبور کی عمومی اجازت میں داخل ہے اور صرف جائز ہے بشرطیکہ آپ پر درود و سلام پڑھنے پر اکتفا کیا جائے اور آپ کو مخاطب کر کے دعا کی شکل میں کچھ بھی طلب نہ کیا جائے، ورنہ یہ زیارت شرک میں تبدیل ہو جائے گی اور ایسا کرنے والا ان یہود و نصاریٰ کے مانند ہو جائے گا جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ یہ ساری باتیں صرف صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں اور کوئی بات بھی اپنے ذوق و پسند سے، یا محض صوفیا کی مخالفت میں نہیں کہی گئی ہے۔ اب آئیے یہ دیکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے مسئلہ میں اکابر صوفیا کیا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے اس عقیدہ کا ماخذ کیا ہے؟ ۱۔ مولانا خلیل احمد متوفی ۱۳۴۶ھ (مطابق ۱۹۲۷م) کا شمار دیوبند کے اکابر صوفیا میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ دار العلوم کے مؤسسین، اور ان کے رفقاء سب کے سب صوفی اور حنفی تھے اور مولانا خلیل احمد کی کتاب ’’المہند علی المفند‘‘ دراصل صوفیائے دیوبند اور علمائے دیوبند کے عقائد کی کتاب ہے جو درحقیقت انہوں نے بریلوی عقیدہ کے بانی مولانا احمد رضا خاں کے ان الزامات کے جواب میں تحریر فرمائی تھی جو انہوں نے علمائے دیوبند پر لگائے تھے اور ان کو وہابی قرار دیتے ہوئے اہل سنت و جماعت سے خارج کر دیا تھا، یہ واقعہ ۱۳۲۳ھ (مطابق ۱۹۰۵ء) کا ہے۔ مولانا خلیل احمد کا علمی مقام و مرتبہ اور صلاح و تقویٰ، صوفیائے دیوبند کے نزدیک جس مقام بلند پر تھا اس کا اندازہ تبلیغی جماعت کے معلم و مربی مولانا زکریا صاحب کے اس دعویٰ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’جب وہ حرم پاک میں داخل ہوتے تھے تو پورا حرم بقعہ نور بن جاتا تھا۔[1] یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حرم میں بجلی نہیں داخل ہوئی تھی۔ مولانا خلیل نے زیارت قبر نبوی کا حکم ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بیان فرمایا تھا، سوال و جواب حسب ذیل ہے:
[1] فضائل اعمال: ۱/۳۵۴، فضائل ذکر