کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 599
جا کر سلام پڑھا ہے، اس لیے علماء اسے جائز سمجھتے ہیں ، ضروری نہیں ۔ چنانچہ خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ حج یا جہاد وغیرہ کے لیے مدینہ سے نکلتے، پھر لوٹتے، مگر قبر نبوی کے پاس حاضری نہ دیتے، کیونکہ اس طرح کی کوئی سنت ان کے علم میں نہیں تھی، ازواج مطہرات بھی خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد حج کے لیے سفر کرتیں ، پھر واپس اپنے گھر چلی جاتیں ، قبر نبوی کا رُخ نہ کرتیں ، نیز ابوبکر اور عمر فاروق کے زمانے میں یمن وغیرہ سے جہاد کے لیے فوجیں مدینہ آتیں ، وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتیں ان میں سے کوئی نہ قبر نبوی والے حجرے میں جاتا اور نہ ہی اس سے باہر نماز یا دعا یا درود و سلام کے لیے کھڑا ہوتا، اگر ایسا کرنا سنت ہوتا تو اس پر کثرت سے ان کا عمل ہوتا اور وہ ان کے درمیان معروف و مشہور بات ہوتی، مگر ایسا کوئی عمل حدیث و تاریخ کی کتابوں سے ثابت نہیں ۔‘‘ امام مالک متوفی ۱۷۹ھ مدینہ والوں کے لیے زیارت قبر مباک کو ضروری نہیں بتاتے، بلکہ جو سفر سے واپس آئیں یا جو باہر سے مدینہ آئیں ان کے لیے وہ اسے جائز سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لوگوں نے امام صاحب سے پوچھا کہ مدینہ کے کچھ لوگ سفر کے بغیر بھی ہر دن ایک یا اس سے زیادہ بار زیارت کرتے ہیں ، بلکہ جمعہ اور دوسرے دنوں میں کئی کئی بار قبر کے پاس جا کر دیر تک کھڑے رہتے ہیں اور سلام و دعا کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: ہمارے شہر (مدینہ) میں کسی فقیہ و عالم سے یہ منقول نہیں اور اس پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے، اس امت میں بعد میں آنے والوں کی اصلاح اسی طریقے سے ممکن ہے جس طریقے سے دورِ اوّل میں ہوتی تھی، مجھے علم نہیں کہ دور اوّل میں صحابہ و تابعین نے ایسا کیا ہو، اس لیے مدینہ سے سفر پر جانے یا آنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لیے ایسا کرنا مکروہ ہے۔[1] مزید یہ کہ جزیرۂ عرب کے ہمسایہ ملکوں میں کثیر تعداد میں انبیاء اور رسول مدفوں ہیں ۔ خلفائے راشدین کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان ملکوں کو فتح کیا، فلسطین اور شام میں تو بڑی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سکونت اختیار کر لی تھی، مگر کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی بھی صحابی نے کسی نبی یا رسول کی قبر کی زیارت کی ہو، اور تو اور خلیفۂ دوم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیت المقدس فتح ہوا اور اہلِ ایلیا (نصاریٰ) کے لیے امان نامہ لکھنے کی غرض سے خلیفہ دوم نے بنفس نفیس بیت المقدس کا سفر کیا اور امان نامہ لکھ کر اہلِ ایلیا کو دیا۔ اس موقع پر امیر الجیش ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سمیت متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے فرحت و شادمانی اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا موقع تھا اور بیت المقدس سے قریب ہی ’’حبرون‘‘ موجودہ الخلیل واقع ہے جہاں ابراہیم خلیل اللہ ان کے بیٹے اسحاق اور پوتے یعقوب علیہم السلام مدفون ہیں کیا تصوف کی قبوری شریعت کی رو سے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ اور صحابہ ’’فاتحہ خوانی‘‘ کے لیے ان کی قبروں پر حاضری دیتے؟
[1] الشفاء للقاضی عیاض: ۲/۹۲۔ مقدمہ، ص: ۱۰-۱۱